لاہور میں ایک طرف جہاں سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کو اس کے قائد میاں نواز شریف کی واپسی پر ان کے استقبال اور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے مینار پاکستان میں جلسے کی اجازت دی گئی ہے وہیں پاکستان تحریک انصاف کو لاہور کے کسی بھی مقام پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما بلال یٰسین کے مطابق 21 اکتوبر کو ان کی جماعت ’سب سے بڑا‘ جلسہ کر کے ریکارڈ قائم کرے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ بھرپور تعاون کر رہی ہے اور جلسے کے لیے ڈپٹی کمشنر لاہور سے باقائدہ اجازت بھی حاصل کر لی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو لبرٹی چوک سمیت کہیں بھی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری سردار عظیم میو کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر لاہور سے دو مختلف مقامات پر جلسے کی اجازت مانگی گئی جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کے لیے بدھ کو پارٹی رہنماؤں کا اجلاس بلایا گیا ہے۔
اس صورت حال پر پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت قانون کے مطابق اس پر فیصلے کا اختیار رکھتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو جلسے کی اجازت کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر لاہور کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ن لیگ مینار پاکستان گراؤنڈ میں کھلی جگہ پر جلسہ کر رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی کو لبرٹی چوک سمیت کسی بھی مقام پر درخواست دینے کی صورت میں قانون کے مطابق اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘
پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت کیوں نہ مل سکی؟
پاکستان تحریک انصاف سینٹرل پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری سردار عظیم میو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ڈپٹی کمشنر کو لبرٹی چوک پر جلسے کی درخواست دی کہ الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لہذا بطور سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو لبرٹی چوک پر 16 اکتوبر کو جلسہ کرنے کی جازت دی جائے، مگر انہوں نے درخواست مسترد کرنے کا نوٹیفکیشن کر دیا۔‘
سردار عظیم کے مطابق درخواست مسترد کرتے ہوئے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’نو مئی کا واقعہ لبرٹی چوک سے شروع ہوا اس لیے یہاں جلسے کی اجازت نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جسٹس راحیل کامران شیخ نے لبرٹی کی بجائے متبادل مقامات تجویز کر کے ڈی سی لاہور سے رجوع کرنے کا حکم دیا جس پر ہم نے ڈی سی کو سیشن کورٹ کے قریب بابا گراؤنڈ اور موچی گیٹ پر 19 اکتوبر کو جلسے کی اجازت کے لیے درخواست دی جو انہوں نے منظور نہیں کی۔‘
’ہم نے اس بارے میں جسٹس راحیل کامران شیخ کی عدالت سے پیر کو دوبارہ رجوع کیا لیکن فاضل جج کی غیر حاضری کے باعث درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔‘
سردار عظیم کہتے ہیں کہ ’ہم انتخابی مہم کے حوالے سے اپنا منشور عوام کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ جلسہ کرنا ہمارا جمہوری و آئینی حق ہے۔‘
’اس بارے میں حکمت عملی بنانے کے لیے ہم نے کل بروز بدھ پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ جلسے کا انعقاد کس طرح ممکن بنایا جائے۔ کیونکہ پنجاب حکومت کہتی ہے نو مئی کے واقعے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
جبکہ ڈپٹی کمشنر لاہور آفس کے ترجمان کے بقول ’پی ٹی آئی کے لبرٹی چوک جلسے کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر لاہور کے موقف کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو جلسہ کرنے یا اجتماع کرنے کا جمہوری حق حاصل ہے، لیکن ضلعی انتظامیہ قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے تاکہ عام شہریوں کے حقوق سلب نہ ہوں اور سکیورٹی کی صورت حال کو بھی برقرار رکھا جائے۔‘
انہوں نے وضاحتی بیان میں کہا کہ ’ن لیگ کو ایک بڑے گراونڈ میں جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ پی ٹی آئی اگر لبرٹی چوک کے علاوہ کسی کھلی جگہ جلسہ کرنے کی درخواست دیتی ہے تو اس معاملہ کو قانون کے مطابق دیکھا جائے گا۔‘
ن لیگ کے جلسے کی تیاری اور انتخابات کی شفافیت کا سوال
مسلم لیگ ن کے رہنما اور جلسے کی انتظامی کمیٹی کے رکن بلال یٰسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’سابق وزیر اعظم نواز شریف کی آمد پر مینار پاکستان گراؤنڈ میں ریکارڈ جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ ہم جلسے کے ساتھ کارکنوں کو متحرک کر کے انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔‘
بلال یٰسین کا کہنا ہے کہ ’ضلعی انتظامیہ سے جلسے کی باقائدہ اجازت لی گئی ہے جبکہ بارش کی صورت میں بھی جلسے کی تیاریاں بھرپور طریقے سے جاری رہیں گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’انتظامیہ ہمارے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے اور جلسہ گاہ کی سکیورٹی اور انتظامات اجازت نامے کے مطابق جاری ہیں۔‘
’ایک طرف پنڈال میں کارکنان کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور قیادت کے لیے سٹیج بنانے کا کام جاری ہے جبکہ دوسری جانب خواتین کے لیے الگ بیٹھنے کا انتظام اور جلسہ گاہ کی سکیورٹی کو بھی انتظامیہ کے ساتھ مل کر یقینی بنایا جا رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سارے معاملے پر سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا ہے لیکن پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت سیاسی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں۔ جو نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں اور انتظامیہ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’جب عالمی مبصرین کو مدعو کر کے انتخابی عمل مانیٹر کروانے کی بات کی جا رہی ہے تو وہاں اس طرح ایک جماعت کا راستہ روکنے سے انتخابی عمل پر سوال اٹھیں گے۔‘
ان کے بقول ’تحریک انصاف کے جن رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات درج ہیں یا جنہوں نے کوئی جرم کیا ہے ان کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، لیکن کسی سیاسی جماعت کو الیکشن مہم چلانے سے روکنا غیر قانونی اور غیر جمہوری عمل ہے۔‘
’ایسے اقدامات سے نہ انتخابی عمل کوئی تسلیم کرے گا نہ ہی انتخابی نتائج کسی کو قبول ہوں گے۔ اس صورت حال میں دیگر جماعتوں کے ساتھ ن لیگ کو بھی آواز اٹھانی چاہیے تاکہ یہ روایت مستقبل میں ان کے خلاف بھی برقرار نہ رہ سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں بھی زبردستی کسی سیاسی طاقت کا راستہ نہیں روکا جاسکا، اب بھی اس طرح کی کارروائیوں کے نتائج جمہوریت کو کمزور کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ پہلے بھی من پسند نتائج کے لیے سیاسی قوتوں کے لیے روکاوٹیں کھڑی کی گئیں اب بھی اسی طرح کے اقدامات جاری ہیں۔ نہ پہلے جموریت کو اس سے کوئی فائدہ ہوا نہ آئندہ ہوسکتا ہے۔‘