اطالوی مصور لیونارڈو ڈاونچی کی مشہور پینٹنگز ’مونا لیزا‘ اور ’لاسٹ سپر‘ سے لیے گئے نمونوں سے پتہ چلتا ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے مشہور آرٹسٹ کیمیکلز استعمال کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے فن پاروں میں منفرد قسم کا زہریلا مرکب بن گیا۔
امریکن کیمیکل سوسائٹی کے جریدے میں گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق انہوں نے لیڈ آکسائڈ کے مرکب کے ساتھ تجربہ کیا جس کی وجہ سے ان کی مشہور مونا لیزا پینٹنگ کے نیچے کی ایک تہہ میں سیسے کا زہریلا مرکب پلمبونا کرائٹ پیدا ہو گیا۔
ماضی کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مونا لیزا سمیت 1500 کی دہائی کے اوائل کی بہت سی پینٹنگز کو لکڑی کے تختے پر پینٹ کیا گیا جس کی وجہ سے تصویر بنانے سے لکڑی کے تختے پر رنگ کی موٹی ’نیچے کی تہہ‘ بچھانے کی ضرورت ہوتی تھی۔
فرانس میں سائنسی تحقیق کے قومی مرکز سی این آر ایس سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں سمیت دوسرے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس وقت کے دیگر مصور عام طور پر پلاسٹر آف پیرس سے حاصل ہونے والے مرکب جیسو کا استعمال کیا کرتے تھے لیکن مختلف علوم پر دسترس رکھنے والے لیونارڈو ڈا ونچی نے کئی مختلف مرکبات استعمال کیے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کچھ فن پاروں کا آغاز سیسے کے سفید رنگ کی موٹی پرتیں بچھا کر اور آئل میں لیڈ آکسائڈ ڈال کر کیا۔ یہ ایسا نارنجی رنگ ہے جو اوپر والے رنگ کو خشک ہونے کے لیے مخصوص خصوصیات فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے مذہبی پینٹنگ ’لاسٹ سپر‘ کے نیچے کی دیوار پر بھی اسی طرح کی تکنیک کا استعمال کیا جس کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت استعمال ہونے والی روایتی فریسکو میورل پینٹنگ تکنیک سے ہٹ کر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تازہ ترین مطالعے میں سائنس دانوں نے ان دو پینٹنگز کے چھوٹے نمونوں پر تازہ ترین اور ہائی ریزولوشن تجزیاتی تکنیک استعمال کی ہے۔
محققین نے ایک چھوٹے سے ’مائیکرو سیمپل‘ جو اس سے قبل ’مونا لیزا‘ کے ایک پوشیدہ کنارے سے لیا گیا تھا اور ساتھ ہی ’لاسٹ سپر‘ کی سطح سے لیے گئے ایسے ہی 17 چھوٹے نمونوں کا جائزہ لیا۔
مطالعے سے پتہ چلا کہ ان فن پاروں کی نیچے کی پرتوں میں نہ صرف تیل اور سفید رنگ کا سیسہ پایا گیا بلکہ سیسے کا ایک بہت نایاب سیسہ مرکب پلمبوناکرائٹ [Pb5(CO3)O(OH)2] بھی موجود تھا۔
اگرچہ یہ مواد اس سے پہلے اطالوی نشاۃ ثانیہ کی پینٹنگز میں نہیں پایا گیا تھا لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ 17ویں صدی میں ڈچ مصور ریم برانٹ کی بعد کی پینٹنگز میں پایا گیا۔
مصوروں کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے پینٹ کو تیزی سے خشک کرنے کے لیے لیڈ آکسائڈ کا استعمال کیا کرتے تھے لیکن لیونارڈو ڈا ونچی کے زمانے کی پینٹنگز کے لیے یہ طریقہ تجربات کے ذریعے ثابت نہیں ہوا۔
سائنس دانوں کو شہرہ آفاق مصور لیونارڈو ڈاونچی کے زمانے میں لیڈ آکسائڈ کے استعمال کے بارے میں جو واحد ثبوت ملا ہے وہ جلد اور بالوں کے مسائل سے چھٹکارہ پانے کے حوالے سے ہے۔ حالانکہ اب اسے زہریلا سمجھا جاتا ہے۔
© The Independent