امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلا میں موجود سائیکی نامی راکٹ کی پروموشن کے لیے منتخب کیے گئے پاکستانی چراغ بلوچ کو دنیا بھر سے آئے ہوئے ڈیجیٹل کنٹینٹ بنانے والوں کے ساتھ ایک ویڈیو میں ریکارڈ کیا۔
اس ویڈیو میں کنٹینٹ کریئٹرز کو بتایا گیا ہے کہ خلا میں کس طرح کام ہوتا ہے؟ کون سی مشینیں استعمال ہوتی ہیں؟ اور خلا میں جانے والےکون ہوتے ہیں؟
صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر (علاقہ پسنی) سے تعلق رکھنے والے چراغ بلوچ نے ابتدائی تعلیم پسنی سے حاصلہ کی اور انٹر تربت کالج سے کیا۔
کمپیوٹر سائنس اینڈ میتھامیٹکس میں بی ایس کے لیے وہ (2011 سے 2015) روس کے گئے، جہاں انہوں نے روسی زبان بھی سیکھی۔
بی ایس کرنے کے بعد چراغ بلوچ نے اسی روسی یونیورسٹی سے 2017 تک کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی۔
پاکستان واپس آنے کے بعد انہوں نے ماسکو یونیورسٹی سے ویب ڈیویلپمنٹ اور سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ سیکھیں اور روسی دارالحکومت میں نمائش میں بھی حصہ لیا۔
چراغ بلوچ اس وقت امریکہ میں ہیں اور کمپیوٹر سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
وہ سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل کنٹینٹ بھی بناتے ہیں جبکہ دوسرے پلیٹ فارمز کے ذریعے فری لانسنگ بھی کرتے ہیں۔
چراغ بلوچ اس وقت اسنیپ چیٹ میں کنٹینٹ ڈائریکٹر کےطور پر کام بھی کر رہے ہیں۔
ناسا نے چراغ بلوچ کو اپنےخلائی راکٹ کےحوالے سے ڈیجیٹل کنٹینٹ بنانے کے لیے دنیا بھر سے دوسرے 35 افراد کے ساتھ منتخب کیا۔
چراغ بلوچ نے ناسا کے دفاتر جا کر ان کےکام اور خلائی راکٹ کے حوالے سے ویڈیو ریکارڈ کی۔
چراغ نے بتایا: ’ناسا جب کوئی راکٹ خلا میں بھیجتا ہے تو اس کے لیے دنیا بھر سے ڈیجیٹل کام کرنے والوں کو بلاتا ہے، جس کے لیے وہ اپنی ویب سائٹ پر درخواستیں طلب کرتے ہیںاور منتخب ہونے والوں کو ناسا اپنے ہیڈ کوارٹر میں ویڈیوز بنواتا ہے۔‘
چراغ نے مزید بتایا: ’میں نے 2022 میں درخواست دی تھی، لیکن ناکامی ہوئی۔ البتہ 2023 میں ناسا نے خلائی سٹیلائٹ سائیکی مشن کے لیے مجھے منتخب کر لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نےبتایا کہ چار اکتوبر کو لانچ ہونے والا سائیکی راکٹ اب 12 اکتوبر کو خلا میں بھیجا جائے گا، جس کے لیے ڈیجٹیل کنٹینٹ بنانے والوں کو بلایا گیا۔
سائیکی مشن
چراغ بلوچ نے کہا کہ سائیکی راکٹ 2022 میں لانچ ہونا تھا، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اس کو ملتوی کیا گیا۔
’ہمارا کام اس کو کور کرنا ہے، جس کے لیے ہم نے کام کیا اور ناسا نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) ہینڈل سے ہمارے کام کو شیئر کیا۔
’یہ کل وقتی کام نہیں ہے، بلکہ صرف راکٹ لانچ کے لیے لوگوں کو طلب کر کےان کو بریفنگ دی جاتی ہے اور وہ اس کے حوالے سے ویڈیوز اورتصاویر بنا کر سوشل میڈیا چینلز اور دوسرے پلیٹ فارمز سے جاری کرتے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پاکستان سے منتخب ہونے والوں کو انہیں علم نہیں ہے۔
’لیکن بلوچستان سے میں پہلا ہوں جسے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔
’یہ تجربہ اور راکٹ کو قریب سے دیکھنا میرا بچپن سے خواب تھا، جو اب پورا ہوا۔‘