ایک انڈین ٹی وی اینکر کو، جو مبینہ طور پر اپنی دادی کی سبز اور سرخ ساڑھی پہنے ہوئے تھیں، ان کے اسرائیلی مہمان نے نشریات کے دوران کہا کہ ’اسے کسی اور موقعے کے لیے سنبھال کر رکھیں۔‘
مہمان نے، جن کی شناخت اسرائیلی انٹیل سپیشل فورسز کے رکن فریڈرک لینڈو کے طور پر ہوئی، بتایا کہ مرر ناؤ(چینل) کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر شریا دھونڈیال نے فلسطینی پرچم کے کچھ رنگ، سبز اور سرخ زیب تن کر رکھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’نیلا اور سفید ہمیشہ غالب رہے گا۔‘ نیلا اور سفید اسرائیلی پرچم کے رنگ ہیں جبکہ فلسطینی پرچم سبز، سفید، سرخ اور سیاہ ہے۔‘
دھونڈیال نے جواب دیا: ’ہمیں رنگ مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرنے چاہیں، فریڈرک، کبھی کبھی میرے ملک میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ میں نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ ساڑھی ہے۔ اور یہ میری دادی کی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’ساڑھی کسی بھی فریق کے لیے کسی بھی حمایت کی نشانی نہیں۔‘
ان (جملوں کا) تبادلہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیلی صدر نے بی بی سی کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم نہ قرار دینے کے فیصلے کے بعد اس کارپوریشن پر حماس اور اسرائیل کے تنازعے کی ’ظالمانہ‘ کوریج کا الزام عائد کیا ہے۔
ڈیلی میل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں آئزک ہرزوگ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی خاندانوں کو ’صفحہ ہستی سے مٹایا‘ جا رہا ہے اور کہا کہ بی بی سی کو اس بات کا ’اعتراف کرنے کے لیے اور کیا چاہیے کہ ہم دنیا کی بدترین دہشت گرد تنظیم سے نمٹ رہے ہیں؟‘
دھونڈیال نے مزید کہا کہ ’میں نے جو اس وقت پہنا ہے وہ صرف میری دادی کی ساڑھی ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتیں تو آج 105 سال کی ہوتیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ اسرائیل اور حماس کا تنازع کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس شو میں حماس اور اسرائیل کے تنازعے پر بات کرنے کے لیے مدعو کیے گئے مہمان نے اینکر سے کہا کہ وہ اسے (جو لباس انہوں نے پہنا ہوا تھا) کسی اور موقعے کے لیے سنبھال کر رکھیں۔
اس پر دھونڈیل نے جواب دیا: ’نہیں فریڈرک، میں آپ کو اپنے لباس اور الفاظ کا انتخاب نہیں کرنے دوں گی۔‘
اپنے سوشل میڈیا پر صحافی نے شو کا ایک کلپ پوسٹ کیا اور لکھا: ’میری پیاری مرحومہ دادی کی ساڑھی نے آج شام میرے اسرائیلی مہمان کو پریشان کر دیا۔ ایک بار تو، میرے پاس بولنے کے لیے الفاظ ہی نہیں تھے۔‘
My Dear Departed Grandmother's Saree Upset My Guest From #Israel This Evening. For Once I Was At A Loss Of Words. pic.twitter.com/uxaEWiqUza
— Shreya Dhoundial (@shreyadhoundial) October 18, 2023
دریں اثنا امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے دورہ تل ابیب کے دوران غزہ کے ایک ہسپتال میں ہونے والے مہلک دھماکے کے بارے میں اسرائیل کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے پیچھے ’دوسرے فریق‘ کا ہاتھ تھا۔
بعد ازاں انہوں نے اپنے دعوؤں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’میرے محکمہ دفاع کے اعداد و شمار‘ پر مبنی تھے۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے کہا کہ منگل کو غزہ شہر کے ایک ہسپتال میں زوردار دھماکہ ہوا جو زخمیوں اور پناہ کے متلاشی دیگر فلسطینیوں سے بھرا ہوا تھا۔
حماس نے اسرائیل پر فضائی حملے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ اسرائیلی فوج نے دیگر فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے داغے گئے غلط راکٹ کا الزام عائد کیا ہے۔
الاہلی ہسپتال میں اموات سے قبل غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم دو ہزار 778 افراد مارے گئے اور نو ہزار 700 زخمی ہوئے تھے اور مرنے والوں میں دو تہائی تعداد بچوں کی تھی۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ بھر میں مزید 1200 افراد، زندہ یا مردہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیل میں اب تک 1400 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جو سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں مارے گئے تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں تقریبا 200 افراد کو غزہ میں یرغمال بنا لیا گیا۔
نوٹ: اضافی رپورٹنگ منجانب ایجنسیاں
© The Independent