انڈین فوج کے 19 سالہ جوان کی خودکشی کا معاملہ اس وقت سیاسی تنازعے کا شکار ہو گیا جب ان کی آخری رسومات فوجی اعزاز کے بغیر ادا کی گئیں۔
گذشتہ سال شروع کی گئی چار سالہ سروس سکیم ’اگنی پتھ‘ کے تحت بھرتی کیے گئے سپاہی امرت پال سنگھ نے 11 اکتوبر کو اپنے آپ کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
انڈیا کے دارالحکومت دہلی اور امرت پال سنگھ کی آبائی ریاست دونوں میں سیاسی جماعتوں نے فوج پر اس سکیم کے تحت بھرتی ہونے والوں اور دیگر فوجیوں کے درمیان امتیازی سلوک کرنے کا الزام لگایا ہے جس کی وجہ سے فوج کو وضاحت جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
دہلی میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رگھو چڈھا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ امرت پال سنگھ کو ’شہید‘ کا درجہ نہیں دیا گیا۔
چڈھا نے کہا: ’فوج کا کوئی یونٹ ان کی لاش کے حوالے کرنے نہیں آیا۔ ان کی میت کو نجی ایمبولینس میں لایا گیا اور انہیں کوئی فوجی اعزاز نہیں دیا گیا۔ تاہم پولیس نے ان کی آخری رسومات کے دوران انہیں سرکاری اعزاز سے نوازا۔‘
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق خود کشی کرنے والے انڈین فوجی کے حوالے سے چڈھا کا کہنا تھا کہ اس سے بی جے پی کی وفاقی حکومت کی پالیسیوں پر ’سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم فوج نے واضح کیا کہ چوں کہ نوجوان فوجی کی موت ان کے اپنے ہاتھوں سے چلائی گئی گولی کے زخم کی وجہ سے ہوئی اس لیے موجودہ پالیسی کے مطابق انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا اور نہ ہی فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
امرت سنگھ کی موت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے فوج نے اتوار کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ’مسلح افواج اگنی پتھ سکیم کے نفاذ سے پہلے یا بعد میں شامل ہونے والے فوجیوں کے درمیان مراعات اور پروٹوکول کے حوالے سے فرق نہیں کرتیں۔‘
فوج کا کہنا ہے کہ ان کی میت کو ’فوج کے انتظامات کے تحت آخری رسومات کے لیے ایسکارٹ پارٹی کے ساتھ آبائی مقام پہنچایا گیا۔‘ سنگھ کے والد نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ فوج کا ایک حوالدار (سرجنٹ) اور دو فوجی ان کے بیٹے کی لاش کے ساتھ آخری رسومات کے لیے ان کے آبائی گاؤں گئے۔
تنازع اس وقت شروع ہوا جب امرت پال سنگھ کی آبائی ریاست پنجاب میں حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے فوج کے حاضر سروس اہلکاروں کی ’بے عزتی‘ کرنے پر وزیر اعظم مودی کی وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اگنی پتھ سکیم جو پہلی بار گذشتہ سال جون میں شروع کی گئی تھی اس کے تحت زیادہ تر فوجیوں کے ابتدائی معاہدے کی مدت کو موجودہ 17 سال سے کم کرکے چار سال کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اس سکیم کے تحت فوج میں بھرتی ہونے والے جوان پنشن کے حقدار نہیں ہوتے۔ فوج میں بھرتی کے لاکھوں خواہشمند پنشن کو بھرتی ہونے کی صورت میں بڑے فوائد میں سے ایک کے طور پر دیکھتے تھے کیوں پنشن پسماندہ پس منظر سے آنے والے ان لوگوں کو سماجی تحفظ فراہم کرتی ہے جن کے پاس دوسرے پیشے اختیار کرنے لیے ضروری تعلیمی ڈگری کے وسائل نہیں ہوتے۔
چڈھا نے کہا کہ ’وزیر اعلیٰ بھگونت من کی قیادت میں پنجاب حکومت امرت پال سنگھ کے اہل خانہ کو ایک کروڑ (98828 پاؤنڈ) انڈین روپے دے گی اور انہیں شہید کا درجہ بھی دے گی۔ پنجاب حکومت دکھ کی اس گھڑی میں اہل خانہ کے ساتھ ہے۔‘
شرومنی اکالی دل کی رہنما اور سابق مرکزی وزیر ہرسمرت کور بادل نے بھی ان خبروں پر حیرت کا اظہار کیا کہ سنگھ کی آخری رسومات فوجی گارڈ آف آنر کے بغیر ادا کی گئیں۔ انہوں نے ملک کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے اس معاملے میں مداخلت کا مطالبہ کیا۔
تاہم انڈین فوج نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اس کی دیرینہ پالیسی رہی ہے اور ہر سال اوسطاً ایک سو سے 140 فوجی خودکشی کرتے ہیں۔ ان کی آخری رسومات فوجی اعزاز کے ساتھ ادا نہیں کی جاتیں لیکن حق کے مطابق ان کے اہل خانہ کو مالی امداد دی جاتی ہے۔
انڈین فوج کے بیان کے مطابق: ’خود کشی یا خود کو لگائی جانے والی چوٹ کے نتیجے ہونے والی افسوسناک موت کو، خواہ کس بھی سکیم کے تحت بھرتی ہوئی ہو، کو مسلح افواج کی جانب سے ضروری احترام دیا جاتا ہے اور اہل خانہ کے ستھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
’تاہم ان صورتوں میں 1967 کے آرمی آرڈر کے مطابق فوجی اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا نہیں کی جاتیں۔‘
© The Independent