اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے۔
عدالت نے جمعرات کو کہا کہ ’نواز شریف کو پاکستان واپس آنے پر گرفتار نا کیا جائے۔‘
نواز شریف کے وکلا امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ جبکہ نیب پراسیکیوٹر رافع مقصود، افضل قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے قومی احتساب بیورو ’نیب‘ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جمعرات کو جواب طلب کیا تھا۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’ہائی کورٹ نے اپنے آرڈر میں لکھا تھا کہ اپیل کنندہ جب واپس آئے تو اپیل بحال کرا سکتا ہے۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'ہم نے کل (بدھ کو) یہی پوچھا تھا کہ نیب کا کیا موقف ہے؟ اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں؟‘ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’ابھی تو یہی موقف ہے کہ وہ آتے ہیں تو ہمیں ان کے آنے پر کوئی اعتراض نہیں۔‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’آپ نے کس سے ہدایات لی ہیں؟‘ تو نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے ہدایات لی ہیں۔‘
چیف جسٹس نے نیب کو ہدایت کی کہ وس معاملے پر ’تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کرے کہ اسے اعتراض نہیں۔‘ جس کے بعد 24 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
نواز شریف کی درخواست میں کیا استدعا کی گئی تھی
بدھ کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کر دی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ ’عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے کیونکہ درخواست گزار کیسز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں اور عدالت تک پہنچنے کے لیے گرفتاری سے روکا جائے۔‘
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو غیر حاضری میں سزا سنائی۔ درخواست گزار کی اہلیہ لندن میں زیر علاج اور وینٹی لیٹر پر تھیں۔‘
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’فیصلہ سنانے کے اعلان میں تاخیر کی استدعا کی جو منظور نہ ہوئی، ایون فیلڈ ریفرنس میں شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا کالعدم قرار دے کر بری کیا گیا، جبکہ درخواست گزار کے پیش نہ ہونے کے باعث اپیل عدم پیروی پر خارج ہوئی۔‘
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’عدالت نے کہا کہ جب سرینڈر کریں یا پکڑے جائیں تو اپیل دوبارہ دائر کر سکتے ہیں، نوازشریف جان بوجھ کر نہیں بلکہ صحت کی خرابی کے باعث اپیلوں کی پیروی کے لیے حاضر نہیں ہو سکے۔ نوازشریف نے ضمانت کی رعایت کا غلط استعمال نہیں کیا۔ نواز شریف نے اپیلیں بحال کرنے کی بھی استدعا کی ہے۔‘
سابق وزیر اعظم نواز شریف ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ ہیں۔ احتساب عدالت نے 2018 میں نواز شریف کو دس سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ کی سزا سنائی تھی۔ العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دس سال کیلئے عوامی عہدے کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا تھا۔
نواز شریف کے ریفرنسز کا سیاق و سباق
العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیسز میں سزاؤں کے بعد نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سال 2019 میں صحت کی بنیاد پر نواز شریف کو حکومت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہونے پر چار ہفتوں کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔
حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ای ایل سے نکالا تھا جس کے بعد نواز شریف اکتوبر 2019 میں نواز شریف علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے۔
چار سال گزرنے کے باوجود نواز شریف وطن واپس نہ آئے۔ اس وقت ان کی اپیلوں میں عدالت کو بتایا گیا کہ اُن کی صحت ٹھیک نہیں جس پر عدالت نے اعتراض بھی کیا کہ مجرم وہاں بیٹھا ہنس رہا ہو گا کہ کیسے اس نظام کو چکما دے کر برطانیہ آ گیا۔
عدالت نے عدم حاضری پر 15 ستمبر 2020 کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکالے تھے۔
پیش نہ ہونے پر عدالت نے سات اکتوبر کو نواز شریف کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا حکم دیا اور اشتہاری قرار دے دیا تھا۔
سال 2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عدم حاضری پرایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ ’فیئر ٹرائل کے بعد نواز شریف کو سزا ملی جبکہ وہ ضمانت پر لندن جا کر مفرور ہو گئے، بغیر کسی جواز غیر حاضر رہے، اپیلیں خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، حق سماعت کھو چکے ہیں اس لیے کسی ریلیف کے مستحق نہیں۔ گرفتاری دیں یا پکڑے جائیں تو اپیلیں دوبارہ دائر کر سکتے ہیں۔‘
نواز شریف توشہ خانہ کیس:
دوسری جانب جمعرات کی صبح توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 24 اکتوبر تک نواز شریف کے وارنٹ معطل کر دیئے ہیں اور وطن واپسی پر سابق وزیراعظم کو ایئر پورٹ سے گرفتار کرنے سے بھی روکتے ہوئے کہا کہ 24 اکتوبر کو اگر نواز شریف عدالت پیش نہ ہوئے وارنٹ بحال ہو جائیں گے۔
توشہ خانہ سیاق و سباق:
اکتوبر 2020 میں احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں نواز شریف کی جائیداد اور اثاثوں کی ضبطگی کا حکم دے دیا تھا۔ احتساب عدالت کے جج سید اصغر علی نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کی اور عدم حاضری اور اشتہاری قرار دینے کے بعد نواز شریف کی جائیداد ضبطگی کے احکامات جاری کیے تھے۔
نو ستمبر 2020 کو احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت 4 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری ملزم قرار دیتے ہوئے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
نواز شریف توشہ خانہ ریفرنس کیا ہے؟
نیب کے مطابق آصف زرداری اور نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے اُن سے غیر قانونی طور پر وہ گاڑیاں حاصل کیں جو غیر ملکی سربراہان مملکت کی جانب سے اُن کو بطور سربراہ مملکت تخفتاً دی گئیں تھیں لیکن قانون کے مطابق کسی منصب پر فائز رہنے کے دوران ملنے والے غیر ملکی تحائف قومی خزانے کی ملکیت ہوتے ہیں اور ان پر ذاتی حق کا دعوی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے تمام تخائف کو توشہ خانہ میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔ نواز شریف کو دوست ملک کی جانب سے دی گئی مرسڈیز گاڑی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انہوں نے توشہ خانہ سے صرف چھ لاکھ کے عوض حاصل کی تھی۔ اس گاڑی کے حصول پر مارچ 2020 میں نیب کی جانب سے نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔