لاہور کے تاریخی مقام مینار پاکستان کے سائے میں 15 ایکڑ وسیع رقبے پر پاکستان مسلم لیگ ن نے آج (جمعے کو) سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی پر پنڈال سجایا تھا۔
گریٹر اقبال پارک، جہاں نواز شریف نے خطاب کے لیے شام کو آنا تھا، ہم دوپہر 12 بجے کے قریب پہنچے کیونکہ دور دراز سے آنے والے ن لیگ کے کارکنوں اور جلسہ گاہ کے انتظامات کی کوریج کرنا تھی۔
جلسے کی انتظامیہ نے پارٹی کارکنوں کی گاڑیاں پارک کرنے کے لیے جلسہ گاہ کے اطراف 16 مقامات پر بندوبست کیا تھا۔ وہاں گاڑی کھڑی کر کے ہمیں بھی ایک کلومیٹر پیدل جلسہ گاہ تک جانا پڑا۔
جلسہ گاہ کے باہر اور اطراف میں پولیس کے متعدد مرد اور خواتین اہلکار موجود تھے۔
کارکنوں کی آمد کا سلسلہ دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا تھا۔ پانچ بجے کے قریب مریم نواز جلسہ گاہ کے مرکزی سٹیج پر پہنچ گئیں اور کارکنوں کا جوش بڑھاتی رہیں۔
مریم اورنگزیب نواز شریف کی وطن واپسی اور پھر لاہور آمد کے اعلانات سے کارکنوں کی امید باندھتی رہیں۔
سٹیج پر کشمیر اور چاروں صوبوں کے مخصوص لباس میں ملبوس نوجوان پرفارم کرتے رہے اور یہ رنگ جلسہ گاہ کے پنڈال میں بھی دکھائی دیے، جہاں ہر علاقے کی نمائندگی کرتے کارکن دکھائی دیے۔
ن لیگ کی جلسہ گاہ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر تیاریاں دکھائی دیں۔ ہر صحافی پنڈال پہنچنے پر ایک ہی بات کرتا کہ اس بار ن لیگ نے خرچہ بہت کیا ہے۔
سورج غروب ہوتے ہی پنڈال میں لگی سینکڑوں بڑی لائٹس آن کر دی گئیں، رش بڑھ گیا اور پارٹی ترانوں پر کارکنوں کا جوش زیادہ ہوتا دکھائی دیا۔
اس کے بعد ہر طرف انسانی ہی انسان دکھائی دیے، خواتین کے لیے مخصوص علیحدہ جگہ بھی تیزی سے بھرتی چلی گئی۔
لاہوریوں کا ہر جلسے میں شام کو نکلنے کا ٹرینڈ برقرار رہا اور دور دراز سے آئے کارکنوں کے ساتھ لاہوری بھی جوق در جوق پنڈال میں داخل ہوتے دکھائی دیے۔
گریٹر اقبال پارک کے پانچ دروازوں کے علاوہ اضافی باؤنڈری گرل توڑ کر تین اضافی گیٹ بنائے گئے تھے۔
سات بجے کے قریب سٹیج سے مریم نواز نے اعلان کیا کہ میاں صاحب جو کچھ دیر پہلے شاہی قلعے میں بنائے گئے ہیلی پیڈ پر ایئر پورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر پہنچے، وہ جلسہ گاہ آرہے ہیں۔ انہیں گاڑی سے سٹیج تک لایا گیا۔
تھوڑی تاخیر ہوئی تو مریم نواز نے بے چینی سے کہا کہ ’میاں صاحب کو اب جلدی سٹیج کے اوپر لے آئیں، کیا دل نکالنا ہے۔‘
نواز شریف چار سال بعد وطن اور اپنے کارکنوں کے درمیان پہنچے تو ترانوں کے ساتھ کارکن پرجوش ہوکر جھوم اٹھے۔
انہوں نے سب سے پہلے کارکنوں کو ہاتھ ہلا کر حوصلہ افزائی کی، پھر مریم نواز کو گلے لگایا اور دونوں کچھ دیر تک جذباتی انداز میں ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔
مریم نواز نے نواز شریف کا ماتھا چوما اور پاؤں چھوئے۔
اس دوران باہر کے مناظر دیکھنے کے لیے میں بھیڑ سے بمشکل راستہ بنا کر پنڈال کے باہر تک گیا، باہر دیکھا تو ہر طرف لوگ ہی لوگ دکھائی دیے۔ داتا دربار کی طرف، شاہدرہ کی سائیڈ سے تاحد نگاہ انسانی سر ہی نظر آرہے تھے۔
آزادی چوک کے اوپر پل پر بھی مکمل رش تھا، گزرنا تک مشکل تھا، لوگ سڑک کی اطراف پر چھوٹی دیوار کے ساتھ کھڑے اوپر سے پنڈال کا نظارہ کر رہے تھے۔
اسی دوران نواز شریف کی آمد پر مسلسل 15 سے 20 منٹ تک مختلف قسم کی آتشبازی نے آسمان پر قوس قزح کا سماں بندھ گیا۔
جلسہ گاہ میں آنے والے کارکنوں کے چہروں کے تاثرات اور ایک معنی خیز سی خوشی دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ جلسے میں شرکت کا جیسے برسوں سے انتظار کر رہے ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساہیوال سے آئے ایک گروپ کے سربراہ الطاف حسین سے پوچھا کہ پنڈال جانے کی اتنی بے چینی کیوں ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ ’بھائی چھ سال سے ایسے میاں صاحب کو جلسے کی مہلت نہیں دی گئی اور خطاب بھی چار سال بعد سننا ہے۔ ہم تو جلسوں کی رونق کو ہی ترس گئے تھے۔‘
بڑی تعداد میں لوگ پنڈال سے باہر آ رہے تھے ان میں سے ایک عمران نامی کارکن سے پوچھا آپ لوگ باہر کیوں آ گئے خطاب تو ابھی شروع ہوا انہوں نے کہا ’اندر بہت رش ہے باہر اس لیے آئے کہ کھلی جگہ کھڑے ہوسکیں۔‘
بہر حال لوگوں کی آمد کے مقابلے میں انتظامات میں کچھ کمی بھی دکھائی دی۔ کرسیاں کم پڑنا تو خیر جلسوں میں معمول ہوتا ہے لیکن سکرینیں اور سپیکروں کی آواز باہرتک صاف نہیں آرہی تھی۔
البتہ رکاوٹیں کہیں دکھائی نہی دیں سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
میڈیا کو کھلے عام جلسے کی کوریج کی اجازت نہیں تھی، البتہ ن لیگ کے لگائے گئے کیمروں کی ہی لائیو فیڈ چینلز کو دی گئی تھی۔
جلسہ گاہ میں رش کی وجہ سے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی پوری طرح فعال نہیں تھی۔
نواز شریف کا خطاب ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی لوگ جلسہ گاہ سے اپنی گاڑیوں اور گھروں کے طرف جانے لگے۔
ہم بھی داتا دربار کی طرف بڑھے کیونکہ گاڑی ناصر باغ کے قریب پارک تھی۔ داتا دربار تک واپس جانے والوں کا رش تھا اور گاڑیاں پھنسی ہوئی تھی۔