نواز شریف کی اپیلوں کی بحالی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف کی جانب سے اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں دائر کیں اور ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں ان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی استدعا کی۔

پاکستان مسلم لیگ ن قائد میاں محمد نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہیں (مسلم لیگ ن فیس بک)

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل 24 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔

نواز شریف کی جانب سے پیر کو دو نیب ریفرنسز میں سزاؤں کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔

درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ اپیلوں کو بحال کر کے میرٹ پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے۔

پیر کی صبح امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف کی جانب سے اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں دائر کیں اور ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں ان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی استدعا کی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’درخواست گزار بیماری کی وجہ سے بیرون ملک علاج کے لیے گئے تھے، وہ اگرچہ مکمل صحت یاب نہیں ہیں لیکن ملک کی معاشی صورت حال کی وجہ سے انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق 19 اکتوبر 2023 کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ’عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے، کیسز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں عدالت تک پہنچنے کے لیے گرفتاری سے روکا جائے۔‘

جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نواز شریف کو 24 اکتوبر 2023 تک کی حفاظتی ضمانت دے دی تاکہ وہ خود عدالت میں سرینڈر کر سکیں۔

21 اکتوبر 2023 کو نواز شریف کی اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے بعد مختصر قیام میں اپنی قانونی ٹیم سے ملاقات ہوئی تھی۔

وکلا نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزاؤں کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں تیار کر رکھیں تھیں۔

نواز شریف نے سزاؤں کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواست پر دستخط کیے تھے، جبکہ نادرا کی ٹیم بھی ایئرپورٹ پر موجود تھی جنہوں نے نواز شریف کے انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کی اور رسید وکلا کے حوالے کی تاکہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ دائر کرنے کے قانونی لوازمات مکمل ہو سکیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کے کیسز کس مرحلے پہ ہیں؟

ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اشتہاری مجرم ہیں۔

نیب کی سزاؤں کے خلاف اُن کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھیں اور عدم پیشی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں اشتہاری قرار دے کر کیس بند کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ’جب نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو ایک درخواست دائر کریں گے تو کیس دوبارہ سُنا جائے گا۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی حد تک نیب سزاوں کے خلاف اپیلوں کی سماعتیں کیں اور نیب کے ناکافی شواہد پر انہیں بری کر دیا تھا۔

قانونی طور پر اسی کیس میں اب نواز شریف کی ضمانت کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے۔

نواز شریف ایون فیلڈ، العزیزیہ ریفرنسز کا سیاق و سباق

احتساب عدالت نے 2018 میں نواز شریف کو 10 سال قید اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 10 سال کے لیے عوامی عہدے کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا تھا۔

العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیسز میں سزاؤں کے بعد نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سال 2019 میں صحت کی بنیاد پر نواز شریف کو حکومت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہونے پر چار ہفتوں کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔

حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ای ایل سے نکالا جس کے بعد نواز شریف اکتوبر 2019 میں نواز شریف علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے۔

چار سال گزرنے کے بعد نواز شریف وطن واپس نہ آئے۔ عدالت نے عدم حاضری پر 15 ستمبر 2020 کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکالے۔

پیش نہ ہونے پر عدالت نے سات اکتوبر 2023 کو نواز شریف کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا حکم دیا اور اشتہاری قرار دے دیا گیا۔

سال 2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عدم حاضری پرایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ ’فیئر ٹرائل کے بعد نواز شریف کو سزا ملی جبکہ وہ ضمانت پر لندن جا کر مفرور ہو گئے، بغیر کسی جواز غیر حاضر رہے، اپیلیں خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، حق سماعت کھو چکے ہیں اس لیے کسی ریلیف کے مستحق نہیں۔ گرفتاری دیں یا پکڑے جائیں تو اپیلیں دوبارہ دائر کر سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست