پاکستان کی وزارت عظمٰی کے منصب پر تین مرتبہ فائز رہنے والے 73 سالہ نواز شریف نے لگ بھگ چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد اپنے حامیوں کی بڑی تعداد سے لاہور کے تاریخی مینار پاکستان پر طویل خطاب کے دوران کہا کہ ان کے ’دل میں انتقام کی رتی برابر تمنا نہیں ہے۔‘
نواز شریف نے کہا کہ ان کی 40 سالہ سیاسی زندگی کا نچوڑ ہے کہ ملک کی ترقی تب ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب سب مل کر کام کریں۔
انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز پر ایک سفید کتوبر اپنے دائیں ہاتھ پر اٹھاتے ہوئے امن کا پیغام دیا۔
دکھ کا ذکر لیکن بدلہ نہ لینے کا عزم
مسلم لیگ ن کے قائد نے اپنے ذاتی دکھ کا ذکر تو بوجھل الفاظ میں کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادارے مل کر کام کریں۔
انہوں نے اپنی والدہ اور اہلیہ کے انتقال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں کبھی بھولا نہیں جا سکتا کیوں کہ ’جو پیارے جدا ہو جاتے ہیں وہ کبھی واپس نہیں آتے۔‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ اور اہلیہ ان کی سیاست کی نذر ہو گئیں اور اب جب وہ گھر واپس جا رہے ہیں تو ان کا استقبال کرنے کے لیے نہ تو والدہ ہوں گی اور نہ ہی اہلیہ۔
نواز شریف نے کہا کہ ’میں قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘ اور قوم کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔
پرانے دور کا موازنہ
نواز شریف نے اپنی تقریر میں تفصیل سے اپنے پرانے دور کا موجودہ حالات سے موازنہ کیا اور کہا کہ ماضی کی نسبت مہنگائی میں کئی گنا اضافہ اور ملک کی معیشت گھمبیر صورت حال سے دو چار ہوئی۔
انہوں نے وعدہ تو کیا کہ وہ ملک کے حالات کو بدلیں گے لیکن اس لیے کوئی جامع حکمت عملی نہیں بتائی۔
معاشی مشکلات سے ملک کو نکالنے کا نو نکاتی ایجنڈا
سابق وزیراعظم نے ملک کو بحرانوں اور عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نجات دلانے کے لیے نو نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔
1۔ سرکاری اور انتظامی اخراجات میں کمی
2۔ آمدنی/ محصولات میں اضافہ/ ٹیکس کے نظام میں بنیادی اصلاحات
3۔ برآمدات میں اضافے کے لئے فوری اور ہنگامی نوعیت کے اقدام
4۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب
5۔ توانائی (بجلی گیس) کی قیمتیں کم کرنا
6۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی انتظام کاری
7۔ نوجوانوں اور خواتین کے لئے روزگار کے مواقع
8۔ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انقلاب
9۔ نظام عدل وانصاف میں اصلاحات
ایجنڈے پر عمل درآمد کا لائحہ عمل واضح نہیں کیا گیا
نواز شریف نے معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اپنی ترجحیات کا ذکر تو کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے گا۔
بظاہر ان کی یہ تقریر وطن واپسی اپنی جماعت کے حامیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر انہیں آئندہ انتخابات میں کامیابی ملی تو ان کی ترجحیات مہنگائی کا خاتمہ اور ملک کو معاشی مشکلات سے باہر نکالنا ہو گا۔
نہ انتخابات کا ذکر نہ ہی سیاسی حریفوں سے مفاہمت کی بات
مسلم لیگ ن کے قائد کی واپسی ایسے وقت ہوئی ہے جب ملک آئندہ عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں انتخابات کرانے کا کہہ رکھا ہے لیکن تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن نواز شریف نے انتخابات کروانے سے متعلق اپنی تقریر میں کچھ نہیں کہا اور نہ ہی کسی سیاسی مفاہمت کا ذکر کیا کیوں کہ اس وقت مسلم لیگ ن کی ایک بڑی حریف جماعت کے سربراہ اور نواز شریف کے ناقد عمران خان جیل میں بند ہیں اور انہیں مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔
آغاز شعر سے اور اختتام پر دعا
نواز شریف نے اپنی تقریر کے آغاز میں یہ شعر پڑھا:
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں،
وہ میری طرف دیکھیں تو میں سلام کروں
لیکن انہوں نے اس کی تشریح نہیں کی۔ شاید انہیں یقین تھا کہ اس شعر کے ذریعے ان کے جذبات مجمع تک پہنچ چکے ہیں۔
تاہم جلسے کے اختتام سے قبل انہوں ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کی جس میں ملک کی مشکلات کے خاتمے اور خوشحال کی تمنا کی گئی۔