امریکی حکام کے مطابق پولیس نے ریاست مین کے شہر لیوسٹن میں فائرنگ کے واقعے میں مطلوب مشتبہ شخص کی لاش برآمد کر لی ہے، جس کے بعد 48 گھنٹے تک جاری رہنے والی تلاش کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مین کے پبلک سیفٹی کمشنر مائیک ساؤچک نے جمعے کی شب صحافیوں کو بتایا کہ رابرٹ کارڈ کی بظاہر اپنی ہی گولی لگنے سے موت واقع ہوئی، جن کی لاش مقامی وقت کے مطابق شام 7:45 پر ملی۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے قانون نافذ کرنے والے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ کارڈ کی لاش لزبن شہر کے قریب جنگل میں ایک ری سائیکلنگ سینٹر سے ملی۔
کمیشنر مائیک ساؤچک نے کہا کہ وہ فوری طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ رابرٹ کارڈ نے خود کو کب گولی ماری تھی۔
مین کے پبلک سیفٹی کمشنر مائیک سوسچک نے کہا کہ رابرٹ کارڈ کی سفید ایس یو وی بھی لاش کے قریب سے ملی۔
لاش ملنے کے بعد کمشنر ساؤچک نے لیوسٹن کے آس پاس کے علاقے میں لاک ڈاؤن کو ہٹانے کا اعلان کیا، جہاں سکولوں اور کاروباروں کو بند کردیا گیا تھا۔
دوسری جانب مین کی گورنر جینیٹ ملز نے عجلت میں بلائی گئی ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا: ’میں آج رات یہ جان کر سکون کا سانس لے رہی ہوں کہ رابرٹ کارڈ اب کسی کے لیے خطرہ نہیں رہے۔‘
مین سے تعلق رکھنے والی سینیٹر سوسن کولنز نے بھی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ صدر جو بائیڈن نے انہیں فون کرکے مجرم کے بارے میں دریافت کیا۔
انہوں نے لکھا: ’مین کے رہائشی اب سکون کا سانس لے سکتے ہیں کیوں کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے اس قاتل کو تلاش کرنے کی کوششوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔‘
دوسری جانب حکام نے جمعے کو تمام مارے جانے والے افراد کی شناخت مکمل کر لی، جن میں 70 سالہ میاں بیوی اور ایک 14 سال کا بچہ بھی شامل ہے جو اپنے والد کے ساتھ اس واقعے میں موت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔
حکام نے کہا تھا کہ وہ 530 سے زیادہ ٹپس کو فالو کر رہے ہیں۔ جمعے کو ہی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے لیوسٹن سے سات میل دور جنوب مشرق میں لزبن میں دریا میں مشتبہ حملہ آور کی تلاش کی اور غوطہ خوروں نے ثبوت تلاش کرنے کے لیے سونار ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔
لیوسٹن میں ماس شوٹنگ کے مشتبہ حملہ آور رابرٹ کارڈ نے بدھ کی رات اندھا دھند فائرنگ کر کے 18 افراد کو قتل کر دیا تھا، جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی تلاش میں مصروف تھے۔ جمعرات کی شب ان کے آبائی گھر کو بھی گھیرے میں لیا گیا تھا۔
حکام نے پہلے روز اس واقعے میں مرنے والے افراد کی تعداد 22 بتائی تھی تاہم بعد میں اسے تبدیل کر کے 18 کر دیا گیا جب کہ 13 افراد فائرنگ سے زخمی بھی ہوئے تھے۔
ملزم کی تلاش کے دوران حکام نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی تھیں، سکولوں اور کاروبار کو بند کرنے کا حکم دیا اور رہائشیوں کو گھروں کے اندر رہنے کو کہا۔
یہ واقعہ 2017 کے بعد سے امریکہ میں فائرنگ کے مہلک ترین واقعات میں سے ایک ہے، جب لاس ویگاس میں ایک پرہجوم میوزک فیسٹیول کے دوران فائرنگ میں 60 افراد مارے گئے تھے۔
مارے گئے مشتبہ حملہ آور کون تھے؟
امریکی فوج کے ریزرو دستے میں کام کرنے والے 40 سالہ سابق فوجی رابرٹ کارڈ کی حملے کے وقت اسلحے کے ساتھ کئی مبینہ تصاویر انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہیں۔
مین سٹیٹ پولیس کے کرنل ولیم راس نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ حکام نے قتل کے الزام میں رابرٹ کارڈ کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کر دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
متعدد قانون نافذ کرنے والے ذرائع کے مطابق رابرٹ کارڈ ایک سرٹیفائیڈ آرمز انسٹرکٹر تھے۔
امریکی فوج نے رابرٹ کارڈ کی فوجی خدمات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ وہ دسمبر 2002 میں فوج میں بھرتی ہوئے اور آرمی ریزرو میں سارجنٹ فرسٹ کلاس (ایس ایف سی) کے عہدے پر رہے، تاہم ان کی کسی جنگ میں تعیناتی نہیں کی گئی۔
فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا: ’امریکی فوج نے ایس ایف سی کارڈ کو آتشیں ہتھیاروں کے انسٹرکٹر کے طور پر تربیت نہیں دی تھی اور نہ ہی انہوں نے فوج کے لیے اس حیثیت میں خدمات انجام دیں۔‘
ایک امریکی فوجی کیریئر کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ایک پیٹرولیم سپلائی سپیشلسٹ تھے، جن کی ذمہ داریوں میں فوج کے لیے ایندھن کی فراہمی کو ہر وقت تیار رکھنا تھا۔
اے بی سی نیوز کے مطابق انہیں مبینہ طور پر نیشنل گارڈ کے ایک اڈے پر فائرنگ کی دھمکی دینے کے بعد رواں سال کے شروع میں ایک ذہنی صحت کے مرکز میں دو ہفتے گزارنے پڑے تھے۔
این بی سی نیوز نے قانون نافذ کرنے والے بلیٹن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ رابرٹ کارڈ نے حال ہی میں دماغی صحت کے مسائل کی اطلاع دی تھی، جس میں عجیب و غریب آوازیں سننا اور نیشنل گارڈ بیس میں فائرنگ کرنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔