صفائی نصف ایمان ہے اور بطور پاکستانی کچرا ہماری پہچان ہے، ہمارے دل و دماغ میں کچرا دھرا ہے، عصبیت کا کچرا، لسانیت کی بدبو، فرقہ پرستی کے بھبکے، گالم گلوچ سے آلودہ زبانیں، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بدبو دار حسرتیں، کسی کی خوشی پرجل جل کر سڑنے کی ہماری خصلتیں۔
سو جب ہم ذہنی اور شعوری طور پہ سر تا پیر مجسم کوڑا کرکٹ ہیں تو گلی، محلوں سڑکوں پہ بھی کچرا دھرے کا دھرا ہے۔
بدبو کے بھبکے اڑاتے کچرے کے ڈھیر اس معاشرے کی آن ہیں، اس قوم کی شان ہیں، کیونکہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے، پھر وہی کھڑا پانی پڑا رہ جاتا ہے، پڑا پڑا سڑتا رہتا ہے۔
پھر اس میں مکھی مچھر پیدا ہوتا ہے، جو بیماریاں لاتا ہے، بچوں کو ٹائی فائیڈ کراتا ہے، گیسٹرو سے لڑواتا ہے، ڈینگی کا خطرہ بھی پھیلاتا ہے،ڈاکٹروں کی چاندی کراتا ہے، دوا ساز کمپنیوں کے سیلز ایجنٹس کے کمیشن پہ دوائیاں لکھواتا ہے، سب کے ٹور کراتا ہے، صفائی کرنے والوں کا شہر سے صفایا کراتا ہے۔
صفائی کی ذمے داری کس کی ہے اس پہ کچرے کی سیاست کراتا ہے، میراتھون ٹرانسمیشنز والا سیاست کا کچرا دکھاتا ہے اور رہ گیا عام آدمی تو وہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتا رہ جاتا ہے کہ خدا ایسے نمائندے کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے کیونکہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے۔
اب تو ماشا اللہ اس کچرے میں نہ صرف ہم خود کفیل ہوچکے ہیں بلکہ دنیا ہماری اس بمپر پیداوار پہ انگشت بدنداں ہے۔ آنکھیں پٹ پٹا کر اپنے گالوں پہ ہولے ہولے تھپڑ مارنے کے ساتھ بازو میں چٹکیاں بھی کاٹ رہی ہے کہ یہ خواب ہے کہ حقیقت۔
کراچی کے کچرے کے چرچے سات سمندر پار امریکا تک پہنچ چکے ہیں، عطر آلود ہواؤں کے ساتھ مکھیوں کی یلغار کی داستانیں اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں اور امریکی حیرت کے مارے آنکھیں پھاڑے اس حیرت کدے کو تکے جارہے ہیں، ساتھ ہی عش عش کرتے ہوئے واٹ آ کنٹری، واٹ آ کنٹری کی صدائیں باآواز بلند سنائی دے رہی ہیں۔
کراچی کو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقت میں آسیب نے گھیرا ہوا ہے۔ بارش کے بعد ایک اور بارش اور ساتھ ساتھ بقر عید گزری تو شہر والوں نے جانوروں کے ساتھ ساتھ اپنی عقل پہ بھی چھری چلادی۔
بکروں اور بیلوں کے ساتھ ساتھ شعور کی بھی کھال اتار لی گئی، بارش اور سیورج کے پانی کے ساتھ ساتھ قربانی کے جانوروں کا خون شامل ہوا اور نہ جانے کہاں کہاں سے بہتا ہوا ندی نالوں میں جا ملا۔
عید کے تین روز سڑک کنارے لگے بار بی کیو ریسٹورنٹس عطر آلود فضاؤں سے مہکتے رہے، اوجھڑیوں کا ڈیوڈرنٹ سیخ اور گولا کباب کے دھویں کے ساتھ مستانی ہوا کی دوش پہ اڑتا پھرا اور عاشقان ڈائننگ آؤٹ ساری خوشبوات نتھنوں سے گزار کر اپنے ذہنوں کو آسودہ کرتے پائے گئے۔
بارہ ہزار ٹن یومیہ کچرے کے ساتھ جانوروں کے سپئر پارٹس کے ملاپ سے پیدا ہونے والے کیمیائی اور حیاتیاتی رد عمل سے اس شہر میں مکھیوں کے غول کے غول حملہ آور ہو گئے۔
ہر گھر میں بن بلائے مہمانوں کی طرح کھانے پینے کی اشیا پہ ندیدوں کی طرح جا بیٹھے، گھروں کے کمروں میں پنکھوں کے ساتھ ساتھ مکھی راگ چل رہا ہے۔ چائے کی پیالی رکھو تو مکھی گھونٹ بھرنے کی خواہش لیے اس میں ڈوب مرتی ہے اور چائے پینے والا خون کے گھونٹ پیتا رہ جاتا ہے۔
کمرے کا دروازہ کھول کر ہش ہش کرو تو مزید مکھیاں جوق در جوق مزاج پرسی کو پہنچ جاتی ہیں، گاڑی میں ہمارے بیٹھنے سے پہلے مکھیوں کا سکیورٹی وفد صورت حال کا جائزہ لیتا ہے۔ ہمارے لیے نشست کا انتخاب کرتا ہے، آنکھ کھولو تو پتلیوں میں گھس بیٹھنے کا حیلہ ڈھونڈتی ہیں، آنکھ بند کرو تو کان کے پردے میں بھن بھن کرتی رہتی ہیں۔
کراچی کے کچرے کے ساتھ ساتھ اب مکھیوں کی بھنبناہٹ بھی نیو یارک ٹائمز تک پہنچ گئی ہے، امریکی اخبار کا آرٹیکل پڑھ کر بے اختیار ہمارے منہ سے نکلا کہ بدنام ہوں گے توکیا نام نہ ہوگا؟
اب آجائیں سندھ سرکار پر تو انہوں نے تو شاید یہ سوچ اپنا لی کہ مرسوں مرسوں کوڑا نہ اٹھاسوں تو مئیر کراچی بھی یہی گنگناتے رہے آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے، ماضی میں ڈوبے گیت نہ دے، اختیار کا سسکتا ساز نہ دے، ابھی کراچی والے الزامات اور جوابی الزامات کا راگ رنگ سن ہی رہے تھے کہ کچرے کی پچ پہ کمال کا کھیل شروع ہوگیا۔
مصطفی کمال صاحب نے میئر صاحب کو دھڑا دھڑ شارٹ پچ انداز میں باؤنسر مارے تو بجائے ویل لیفٹ کرنے کے، وسیم اختر صاحب کاٹ اینڈ بولڈ ہوگئے، جن کے پاس کچرا اٹھانے کا اختیار نہ تھا انہوں نے ہی اختیار آزما کر مصطفی کمال کو پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج تعینات کردیا اور ساتھ ہی چیلنج دے دیا کہ ڈائریکٹر صاحب کچرا اٹھاؤ تو جانیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق میئر نے موجودہ میئر کو فورا یس باس کہا اور ساتھ ہی اسی رات سارا حساب کتاب مانگ کر چکتا کرنے کا اعلان کردیا۔
رات دو بجے اصغر علی شاہ سٹیڈیم کے ساتھ برج ال کچرا پہ جا کھڑے ہوئے، میئر صاحب کے عملے کو بلایا، میڈیا کو بھی دعوت نامہ پہنچایا، میڈیا تو ریٹنگ کی دوڑ میں پہنچا لیکن جن کے باس مصطفی کمال صاحب تعینات ہوئے تھے ان سبھی نے نو لفٹ کا ورڈ لگادیا کہ آپ کے باس کا کہنا ہے کہ تھرو پراپر چینل معاملہ چلے گا ورنہ کچھ بھی نہیں چلے گا۔
اسی تو تو میں میں، ابھی تعیناتی کے نوٹیفکیشن کی روشنائی سوکھی بھی نہ تھی کہ میئر صاحب نے اپنے حکم نامے کا ہی کچرا بنادیا اور مصطفی کمال صاحب کی چاندنی کو پھر سیاست کا گرہن لگ گیا۔
سیاسی میوزیکل چیئر کے اس کھیل میں ایم کیو ایم کے میئر کی انگلی پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی طرف اٹھی ہوئی ہے، پیپلز پارٹی والوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ پی ٹی آئی کو بھی الزامات کے کھیل میں لپیٹا ہوا ہے لیکن اس سارے کھیل میں سب سے دلچسپ انٹری سابق وزیر ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ کی ہوئی، جو اب وزیر بلدیات کے طور پر کچرا اٹھانے کی بھی ویسی تاریخیں دے رہے ہیں جیسے ماضی میں کراچی میں نئی نویلی جدید ترین بسیں چلانے کی قسمیں کھاتے تھے۔
اب یہ کراچی والے جائیں تو جائیں کہاں؟ مکھیوں کی اس فوج نے گندگی میں رہنے کے عادی شہریوں کو بھی ناکوں چنے چبوادیے۔
وہ شہری جنہیں کوڑے کرکٹ سے پہلے شناسائی کرائی گئی، پھر جان پہچان سے معاملات نظر کے سامنے جگر کے پار تک پہنچ گئے۔ عید کے بعد توکراچی میں کانگو وائرس کی یلغار بھی جاری ہے۔
جانوروں سے پھیلنے والا وائرس شہر میں اس سال 13 زندگیاں کھاگیا، عید اور بارشوں کے بعد ہونے والا جراثیم کش سپرے بھی چندے کی نذر ہوگیا، اور اب کراچی والے حیرت سے منہ کھولے سوچ رہے ہیں کہ بولیں تو بولیں کیا اور پوچھیں تو پوچھیں کیا۔ کچھ نہ پوچھو منہ بند کرلو، ورنہ مکھی منہ میں گھس جائے گی۔