بلوچستان کے ضلع چمن میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر آمدروفت کو مکمل دستاویزی بنانے اور پاسپورٹ کو لازمی قرار دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف پانچ روز سے دھرنا جاری ہے۔
چمن میں پاک افغان سرحد کے باب دوستی سے تین کلو میٹر دور جاری اس دھرنے کی حمایت تاجر تنظیموں سمیت تقریباً 20 سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں کر رہی ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ یکم نومبر سے سرحد پر دوسرے لوگوں کے علاوہ مقامی رہائشیوں کے لیے بھی پاسپورٹ کی شرط انہیں منظور نہیں۔
کوئٹہ میں 10 اکتوبر کو صوبائی ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس، جس میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی، میں غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے اور افغان سرحد پر تذکرہ اور شناختی کارڈ کی بجائے پاسپورٹ کا نظام لاگو کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
تاجر لغری اتحاد کے دھرنے کے سربراہ اولس یار نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کو ایپکس کمیٹی کا فیصلہ کسی صورت قبول نہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہمارا یہی پلان ہے کہ اس احتجاج کو آہستہ آہستہ بڑھایا جائے گا اور بعد ازاں اس میں پہیہ جام ہڑتال، مظاہرے اور مارچ شامل ہو سکتے ہیں۔‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمدروفت اور تجارت کے لیے طورخم اور چمن سب سے بڑی گزر گاہیں ہیں۔
طورخم سرحد پر 2016 میں آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے دیا گیا تھا لیکن متعدد کوششوں کے باوجود پاکستانی حکومت چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کے اطلاق کو یقینی نہیں بنا سکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت سرحد پر افغان صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو افغان شناختی دستاویز ’تذکرہ‘ پر پاکستان میں اور شناختی کارڈ پر چمن کا پتہ رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو افغانستان میں داخلے کی اجازت ہے۔
تاہم حکومت پاکستان نے اعلان کر رکھا ہے کہ یکم نومبر سے سرحدی علاقوں کے باشندوں سمیت کسی کو بھی پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر آمدروفت کی اجازت نہیں ہو گی۔
بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے گذشتہ روز چمن میں میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ حکومتی فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔
چمن کے دکان دار لاجبر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومتی فیصلے سے نہ صرف مقامی کاروبار متاثر ہو گا بلکہ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں بھی کاروبار پر فرق پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس لاہور یعنی پورے پنجاب، سندھ اور سرحد (خیبر پشتونخوا) کے لوگ آتے ہیں اب اگر یہ چین رک گئی تو ظاہر سی بات ہے ان کے کاروبار پر بھی منفی اثر پڑے گا۔‘