پنجاب اور بلوچستان کی نگران حکومتوں نے جمعے کو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو نکالنے سے متعلق 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن پر سختی سے عمل کرنے کا عزم دہرایا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستانی حکومت نے 17 لاکھ افغانوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے یا انہیں ملک بدر کرنے کا حکم جاری کر رکھا ہے جن کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم ہیں۔
افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعے کے دوران لاکھوں افغان سرحد پار کر چکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین آبادیوں میں سے ایک بن چکا ہے۔
لیکن اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مسلسل تلخی آئی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت سے اب تک لاکھوں افغان سرحد پار کر چکے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک کی ’فلاح و بہبود اور سلامتی‘ کے تحفظ کے لیے افغان شہریوں کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ پاکستان سے جانے کی ڈیڈ لائن میں ابھی چند دن باقی ہیں لیکن پولیس نے پہلے سے چھاپے مار کر اور افغان شہریوں کو حراست میں لینا شروع کر دیا ہے۔
جمعے کو سینکڑوں افغان خاندان سرحد پار کرنے کے لیے سامان کے ساتھ سرحدی چوکی پر جمع ہوئے۔
سرحدی اہلکار حکیم اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’سرحد پر خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے خاص طور پر حاملہ خواتین اور معذور افراد کو۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ روزانہ دو ہزار سے زائد افراد کے لیے کاغذی کارروائی کی جا رہی ہے حالاں کہ ان میں سے زیادہ تر مزدور اور تاجر ہیں جو اکثر سرحد کے آر پار آتے جاتے رہتے ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان فیروز جمال نے اے ایف پی کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران تقریباً 60 ہزار افغان ’رضاکارانہ طور پر‘ سرحد پار جا چکے ہیں۔
پنجاب میں 36 عارضی کیمپ
پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے آج پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے میں غیر قانونی طور پر رہنے والے 33 ہزار غیر ملکیوں کی نشاندہی کی جا چکی ہے اور صوبائی کابینہ نے انہیں ملک سے نکالنے کی منظوری دے دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورے صوبے میں 36 مقامات پر عارضی کیمپ قائم کیے جائیں گے، جن میں گرفتار ہونے والے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو رکھا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ 31 اکتوبر کے بعد غیر ملکیوں کو پناہ دینے کی صورت میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
صوبائی وزیر کے مطابق رضاکارانہ طور پر پاکستان سے جانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا: ’یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ گرفتار ہونے والے غیر ملکیوں کو کن سرحدی راستوں سے واپس بھیجا جائے گا۔‘
عامرمیر نے واضح کیا: ’کسی مخصوص برادری کے خلاف ایکشن نہیں لیا جا رہا، جن لوگوں کے پاس پی او آر کارڈز ہیں ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔
’دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی بندہ داخل ہوتا ہے اور دستاویزات نہ ہونے کی صورت میں اسے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔‘
’چمن اور سپن بولدک کے لیے استثنی غیر قانونی‘
بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان سے تمام غیر ملکیوں کو نکالا جائے گا اور یہ حتمی فیصلہ ہے، جس پر حکومت پوری قوت سے عمل در آمد کروائے گی۔
جان اچکزئی نے کہا کچھ لوگ چمن اور سپن بولدک کے لیے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو ایک غیر قانونی مطالبہ ہے اور اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
’ایسا کوئی ریلیف نہیں دیا جائے گا جس کا فائدہ شدت پسند اٹھا سکیں۔ چمن کو استثنیٰ کی صورت میں چترال، وزیرستان اور مہمند بھی یہ مطالبہ کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ یکم نومبر کے بعد چمن بارڈر سے کسی افغان باشندے کو پاسپورٹ کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ کے حاجی کیمپ کو غیر قانونی تارکین وطن کے لیے ہولڈنگ سینٹر کے طور استعمال کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر مزید مراکز قائم کیے جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جان اچکزئی نے بتایا کہ سندھ اور پنجاب سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو بھی چمن سے بیرون ملک بھیجا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ڈیڈ لائن کے بعد تمام متعلقہ ادارے غیر قانونی غیر ملکیوں کو نکالنے کا کام شروع کر دیں گے اور ایک کنٹرول سینٹر قائم کیا جائے گا، جس میں متعلقہ اداروں کے نمائندے موجود ہوں گے۔
’چمن کے علاوہ قلعہ سیف اللہ اور چاغی میں کراسنگ پوائنٹس کھولے جا رہے ہیں۔
’بلوچستان میں تمام شہریوں کو غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں سے گھر خالی کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
’آپریشن کے دوران جس گھر میں غیر قانونی تارکین وطن پایا گیا اس مالک مکان کے خلاف کارروائی ہو گی۔‘
بلوچستان کے ضلع چمن میں سیاسی جماعتوں اور تاجروں کا پاکستان افغانستان سرحد عبور کرنے کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کروانے کے لیے دھرنا سات روز سے جاری ہے۔
دھرنے میں ایک اندازے کے مطابق چمن سرحد کو روزانہ 10 ہزار سے زیادہ افراد کاروبار کی غرض سے پار کرتے ہیں، جو وہاں سے دستی سامان لا کر چمن اور پھر لاہور اور کراچی کے مارکیٹوں کو فراہم کرتے ہیں۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جمعے کو سنجاوی میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں کہا کہ چمن سرحد پر پاسپورٹ کی شرط کسی صورت تسلیم نہیں کی جائے گی۔
’اس دنیا میں کوئی بھی پاسپورٹ لے کر اپنی زمین، قبرستان اوررشتہ داروں کے پاس نہیں جاتا۔ حکومت درست فیصلے کرے، افغان سرحد پر ڈیورنڈ لائن کھینچنے والے فرنگی نے بھی ہمیں آںے جانے کی اجازت دی تھی۔‘