جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ ہم نے اس معقولے کو من وعن اپنا لیا ہے۔ چوں کہ ہم ہندوستان سے حالت جنگ میں ہیں لہذا ہر ایسی حرکت، ایسا قول، ایسا فعل اور بیان جو امن کے ماحول میں مضحکہ خیز یا قابل افسوس و پریشانی سمجھا جاتا ہو اب قومی پالیسی کے اعلی مرتبے پر فائز ہو چکا ہے۔
اس وجہ سے ہمیں ہر قسم کی اندرونی صورت حال کا ناصرف دفاع کرنا ہے بلکہ ڈٹ کر یہ اصرار بھی کرنا ہے کہ ہم بہترین انداز سے اس جنگ کو لڑ رہے ہیں۔
کشمیر میں مظالم پر آدھے گھنٹے کے قومی وقفے سے ملک کے بعض شہری حصوں میں زندگی کو معطل کر کے ہم نے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔ زخمی و بلبلاتے کشمیریوں کی امداد خود پر زخم لگا کر نہیں کی جا سکتی۔
بہرحال اب یہ پالیسی ہندوستان کے دانت کھٹے کرنے کے لیے رانی توپ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ میں بہت سے سنجیدہ طبع اور علم و ادب سے واقف شخصیات سے ملاقات کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سرکاری پروپیگینڈے میں پیناڈول ایکسٹرا سے بھی زیادہ تاثیر موجود ہے۔
ان عاقل و بالغ شخصیات نے واقعتاً یہ مان لیا ہے کہ ہمارے پاس کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا اس سے اچھا اور موثر طریقہ اور کوئی نہیں۔ اگر پالیسی ساز اداروں کی فکر انگیزی کا یہی مقام ہے تو شیخ رشید کو دوران تقریر کرنٹ لگ جانے پر جو وقتی دھچکا لگا جو بعد میں لمحاتی سکتے میں تبدیل ہو گیا اور جو ایک قومی قربانی سے کم نہیں۔
یہ علیحدہ بات ہے شیخ رشید ہندوستان کے 22 ٹکڑوں والے پلان کی مزید وضاحت نہ کر پائے اور راجا بازار اور تیلی محلے میں سے اپنے جانثاروں کے جلوس کی قیادت اپنی دھمکیوں کی طرح ادھورا چھوڑ کر سٹیج سے اتر گئے۔ ان کی قربانی بہرحال قابل تحسین ہے۔
اسی طرح لائن آف کنٹرول پر صحافیانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ایک خاتون اینکر کا کشمیر کی ہواؤں کے ذریعے مودی سرکار کو اپنی پرسوز آواز میں پیغام بھی ایک عظیم کاوش ہے۔
ان کی کھنکھناتی گلوکاری نے سوئے ہوئے جذبوں کو غم زدہ وادیوں میں سستاتے ہوئے چرند پرند کے ساتھ اکٹھا بیدار کر دیا۔ یہ مثبت رپورٹنگ کی میراج تھی۔ جب تحریر اور تقریر قومی جذبے میں ڈوب جائے تو ایسی اعلی پائے کی پیشکش ہی جنم لے سکتی ہے۔
جنگ کی اسی حالت میں ہم نے وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ اس آفیشل تصویر کو بھی ستائش کی نگاہ سے دیکھنا ہے جس میں تین، چار افسران ہاتھوں میں خون کے رنگ سے آلودہ یکجہتی کے پوسٹروں کو ڈنڈوں پر کھڑا کیے ہوئے مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے ہندوستان کے مظالم کو اجاگر کر رہے ہیں۔
یقینا یہ تمام اہم افسران جو دن بھر کشمیر میں کشت وخون کی داستانوں پر پُرمغز اور گہری پالیسی ترتیب دیتے ہیں نریندر مودی کی حرکتوں پر ہنس رہے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے ساتھ پاکستانی قوم کو جگا کر کتنا بڑا ہاتھ کیا ہے۔
اگر یہ تصویر کسی سازشی ویب سائٹ کی طرف سے آئی ہوتی تو ہم اس کے غیر معمولی تضادات کو کسی اور رنگ میں دیکھتے، لیکن چوں کہ یہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے جاری کی ہے لہذا احتجاج کرنے والوں کے پُرمسرت چہرے سفارتی کامیابی کی نشانی کے طور پر ہی لیے جائیں گے، جس سے ہم اس وقت ہم کنار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم عمران خان کی معاشی ٹیم ڈاکٹر حفیظ شیخ کی سربراہی میں اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر اور چیئرمین ایف بھی آر شبر زیدی کی معاونت کے ساتھ عوام کا خون اور پسینہ اکٹھا کرنے میں مصروف تھیں۔
جنگ لڑنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے، جن کو جمع کرنے کا کام احتجاج میں شرکت سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اسی طرح کچھ گورنر، کچھ وزرا اعلی، ریاستی قیادت، جوشیلے صحافی، جہادی تجزیہ کار، معروف بزنس مین، میڈیا مالکان بھی اپنی اہم مصروفیات کے پیش نظر دروازوں سے باہر نہیں آئے۔
ظاہر ہے حالتِ جنگ ہے اور ویسے بھی قومی جذبے کے اظہارکے لیے سکولوں کے بچے، بچیاں، حکومتی ملازمین سرخ بتی پر کھڑے ہوئی ہزاروں گاڑیوں میں لاکھوں مسافر تصویریں بنوانے کے لیے کافی ہیں۔ ان کے پاس ویسے بھی کام کاج ہے نہیں۔ سستانے اور وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے وہ اس لڑائی میں اپنا حصہ ڈالیں اور قوم کو حتمی کامیابی کے کنارے پر لا کھڑا کریں۔
لیکن یہ لمحہ فکریہ یقیناً ہے کہ اپوزیشن کے بہت سارے قائدین اس تاریخی لمحے کا حصہ نہ بن پائے۔ اس سے ان کی ملک دشمنی ثابت ہوتی ہے۔ اگر ان کی رگوں میں وطن عزیز سے محبت کا جذبہ لاوے کی طرح ابلتے ہوئے گھوم رہا ہوتا تو وہ جیل کی کوٹھڑیوں میں سلطان راہی کی یاد تازہ کرتے ہوئے دیواریں توڑ کر قومی خدمت سر انجام دیتے ہوئے دیکھائی دیتے۔ ان کا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہے۔
چونکہ حالت جنگ ہے لہذا ہمیں وٹس ایپ کال کے ذریعے رانا ثنا اللہ کے مقدمے کے لیے تعینات جج کے تبادلے کو منظور نظر کرنا ہوگا۔ مریم نواز، حمزہ شہباز، شہباز شریف کے ججز کی تبدیلی، آصف علی زرداری کی جیل منتقلی اور اس خاموش آرڈیننس کی کہانی کو جس کے ذریعے بڑی کمپنیوں کے اربوں روپے کے قرضے معاف کیے گئے ہیں بھی لازمی اقدامات جانتے ہوئے ماننا ہو گا۔
جب قومیں عظیم مقاصد کے حصول کے لیے آدھے گھنٹے کی بازی لگا رہی ہوتیں ہیں تو ایسے فروہی معاملات کو اہمیت دینے کا کوئی جواز نہیں۔
جنگوں کی وجہ سے نوکریاں پکی ہو سکتی ہیں، انصاف کچا ہو سکتا ہے، احتساب کے ادارے حکومت کے بغل بچے بن سکتے ہیں، صحافی گلوکار، ناچنے والے تجزیہ کار اور فکر وعلم سے نابلد قوم کے دیدہ ور معمار بن جائیں تو کچھ عجب نہیں۔
اس عظیم لڑائی کے پس منظر میں اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت ان جیسے دوسرے لوگوں کو فارغ بھی کرنا پڑا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جیت کے لیے ہر بہا خون جائز تصور ہو گا۔
اصول، آئین، قانون، حقوق سب کچھ اس لازوال کوشش کو کامیاب بنانے کے لیے برؤے کار لائے جا رہے ہیں۔ ہمارا قومی مقصد اب واضح ہے۔ کشمیر سے یکجہتی کے نام پر ہم نے ہر وہ کام کرنا ہے جو ہم اس سے پہلے تمام تر استطاعت رکھنے کے باوجود نہیں کر پائے۔
اس طویل جہدوجہد کا اگلا اہم مرحلہ وزیر اعظم عمران خان کی وہ تاریخ ساز تقریر ہو گی جس میں وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نیوکلیئر جنگ کے خوفناک نتائج بیان کریں گے اور تمام دنیا ہمہ تن گوش ہو گی۔
اس تقریر کی اہمیت کے پیش نظر پاکستانی قوم سمیت دنیا کو وقتی طور پر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے یہ ماننا ہو گا کہ ان کو پہلی مرتبہ یہ معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔
دنیا کے وہ تمام تھینک ٹینکس، فزکس کے پروفیسر، نیو کلیئر سائنس دان اور پالیسی میکر جنہوں نے پچھلے تیس سال میں سینکڑوں تحقیقی مکالے، کتابیں اور برصغیر میں نیوکلیئر جنگ کے تصوراتی نقشے بنائے ہیں۔ ان سب کو وزیر اعظم کی گزارشات کو غور سے سننا ہو گا تاکہ وہ جان پائیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جوہری جنگ سے کیسی تباہی ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد پھر دنیا کے تمام اہم ممالک کے تمام اہم لیڈران عمران خان سے حالات کی جانچ لینے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو ساتھ بیٹھا کر سر جوڑیں گے کہ کیسے ہندوستان سے نیو کلیئر ہتھیار واپس لیے جائیں تاکہ ایک خوفناک تباہی و بربادی سے بچا جا سکے۔
ہم امید کرتے ہیں دنیا کی قیادت اس معاملے میں بغض اور تعصب کا ویسے شکار نہیں ہو گی جیسے وہ کشمیر کے معاملے پر ہوئی اور اگر اس نے وزیر اعظم کی پاکستان، ہندوستان کے درمیان نیوکلیئر جنگ کی منظر کشی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کا نیو کلیئر پروگرام امن کے لیے خطرہ ہے تو ہم سب ان کے ساتھ بھی وہی کریں گے جو ہم نے دلی کے ساتھ کیا ہے۔ ہم اس سازش کے خلاف اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے تحفظ میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کریں گے، ترانے گائیں گے، سائرن بجائیں گے۔