قومی، حکومتی و ریاستی کامیابیوں کی عظیم داستانیں گذشتہ ہفتے میں رقم ہوئیں۔ سات دن پھلوں سے لدے پھدے درخت کی مانند نظر آتے ہیں ۔ پُر فخر اور بامقصد۔
شیخ الجہاد الکشمیر شیخ رشید نے ایک کامیاب غیرملکی دورہ کیا۔ اگرچہ یہ دورہ تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے طے پا چکا تھا اور اس کا مقصد ایک فیشن شو میں شرکت تھی۔ لیکن کشمیر کی نازک صورت حال کے پیش نظر پنڈی کے اس ہونہار سپوت نے اپنی تمام تر توجہ مظلوم کشمیری عوام کے تحفظ پر مرکوز کی۔ انیل مسرت کے ساتھ مہنگے شاپنگ سینٹر میں تھیلے بھرتے ہوئے بھی ان بیچاروں کا خیال ترک نہ کیا جو اس وقت بھارت کی دہشت ناک قید میں بلبلا رہے ہیں۔ شیخ رشید کی یہ کامیابی قوم کی کامیابی ہے۔ یقینا اس کی جزا ان کو اگلے انتخابات میں جیت کی صورت میں ملے گی۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس ملک کے وزیر اعظم بن جائیں۔ وہ جس شہر میں رہائش پذیر ہیں وہاں سے اس قسم کے انقلابی اقدامات کے کرشمے اکثر پھوٹتے رہے ہیں۔ شیخ رشید بطور وزیر اعظم پاکستان کوئی انہونی نہیں ہوگی۔
لیکن ایک کامیابی ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور نے حاصل کی۔ سوشل میڈیا پر ’آئی ایم آصف غفور‘ اور ’آئی ایم ڈی جی آئی ایس پی آر‘ کے ٹرینڈز نے طوفان مچا دیا۔ بھارت کے سوشل میڈیا سے ہونے والے بزدلانہ حملوں کا ایسا منہ توڑ جواب دیا گیا کہ دشمن کے دانت اور ٹوئٹر اکاؤنٹ دونوں کھٹے ہوگئے۔ یہ ردعمل اتنا زبردست تھا کہ جنرل غفور کو اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پیغام جاری کرکے ایک بزرگانہ استدعا کرنی پڑی کہ اب بھارتیوں کو مزید مار نہ لگائیں بلکہ ان کو ان کے حال پہ چھوڑ دیں۔ ان کے اس بیان کے بعد ہماری طرف سے ٹوئٹر بمباری ختم ہو گئی اور ایک کامیاب جنگ کا مثبت انداز سے خاتمہ ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح ہم نے جنیوا کنونشن کی ان شقوں کی بھی پاسداری کی جن کے تحت ہارے ہوئے دشمنوں سے اچھا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے کے اس اہم ترین موڑ پر اپنا زور بازو بھی ثابت کر دیا۔ بیشک اب یہ امر واضح ہے کہ جنرل آصف غفور مقبول ترین افسر ہیں۔ انہوں نے مقبولیت میں اپنے سے پہلے ڈی جی جنرل عاصم سلیم باجوہ کو دوستانہ انداز میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان کے بعد آنے والے افسران ان کی قائم کی گئی درخشندہ روایات کو کیسے آگے بڑھائیں گے؟ اگرچہ بہتری کی گنجائش نہیں ہے لیکن کچھ بھی ممکن ہے۔
سب سے تابناک کامیابی سفارتی محاذ پر حاصل ہوئی۔ مسئلہ کشمیر جس کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل 1948 سے متعدد قراردادوں کے ذریعے واضح انداز سے ایک بین الاقوامی تنازع قرار دے چکی ہے ایک مرتبہ پھر ہماری کاوشوں سے تنازع قرار پایا۔ ایک متنازع مسئلے کو متنازع مسئلہ قرار دلوانے میں جو مشقت کرنی پڑی اس کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کئی مرتبہ اپنے گھر اور اس کے علاوہ دیگر دونوں دفاتر میں تین، چار اجلاس منعقد کیے۔ ایک مرتبہ مظفر آباد بھی گئے۔ پرجوش خطاب اور پانچ ٹویٹس کیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل کے صدر کو ایک مکمل خط لکھا۔ خصوصی طیارے سے چین کا دورہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان کالے شیشے والی گاڑیاں تیزی سے آتی جاتی رہیں اور جب حالات مشکل ترین مرحلے میں داخل ہو گئے تو وزیراعظم نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کی۔ یہ ٹیلیفون کال ان کالز کے علاوہ ہے جو انہوں نے ترکی اور ملائیشیا کے سربراہان کو کیں۔ اتنی محنت؟ غیر معمولی کارکردگی ہے۔ اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے ہماری سفارت کاری باثمر ہوئی اور سکیورٹی کونسل نے ایک مشاورتی اجلاس کی نشست کرنے کے بعد برخاست کر دی۔
بھارت کھسیانی بلی کی طرح اب کھمبا نوچ رہا ہے اور احمقانہ حرکات سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے کہ جموں و کشمیر پر اس کی سازش کامیاب ہو گئی۔ اب یہ کشمیریوں کی بدقسمتی ہے کہ ہماری نادر کارگزاریوں کے باوجود وہ اس وقت مودی کے اقدامات کی زد میں ہیں۔ 15 اگست کو اپنی تقریر میں نااہل نریندر مودی نے کسی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ خواہ مخواہ اپنی سفارتی ناکامیوں کے باوجود کشمیری ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے پلان پر بغلیں بجاتے رہے۔
مودی کو احساس نہیں کہ ان کے ساتھ ہم نے کیا ہاتھ کیا ہے۔ اور تو اور دو دن بعد ان کے وزیر دفاع کو بھی پَر لگ گئے اور انہوں نے جوہری جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے بارے میں دیرینہ پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے حالات کے تابع کر دیا۔ راج ناتھ سنگھ کی کم عقلی قابل مذمت ہے۔ نہ جانے وہ ہمارے وزیر دفاع کی مثال سے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے جو نہ دیکھے جاتے ہیں، نہ سنے جاتے ہیں بس قوم کو ایک لطیف سا احساس دلاتے ہیں کہ وہ موجود ہیں۔ بھارت کے منہ پھٹ وزیر دفاع کو اپنے وزیراعظم کی طرح منہ کی کھانی پڑے گی۔ ان کو یکسر احساس نہیں ہے کہ ہمارا کامیاب سفارتی قافلہ کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
بین الاقوامی طور پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مشاورتی اجلاس کے بعد بھارت پر اگر بظاہر دباؤ نہیں پڑا تو اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہم نے یہ دباؤ ڈالا ہوا ہے صرف آپ کو اپنے وزیر دفاع کی طرح نظر نہیں آتا۔
بس آپ نے اپنا ایمان متزلزل نہیں ہونے دینا اور یہ یقین رکھنا ہے کہ ان کامیابیوں کے بعد وہ دن دور نہیں جب بھارت کے اندر سے علیحدگی کی تحریکیں خود رو پودوں کی طرح ابھریں گی اور وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ نہ مودی بچے گا نہ راج ناتھ۔ نہ ان کے پاس کشمیر رہے گا نہ دلی۔ ہم نے 72 سال سے اپنی شہ رگ کی حفاظت کی ہے۔ اب ایک نالائق دشمن نے سستی چالاکی کے ذریعے اس کو دبوچ لیا ہے تو اس پر غیرمعمولی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ہماری ان سفارتی کامیابیوں کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اب کسی کی نوکری کو کوئی خطرہ نہیں۔ اگر سلامتی کونسل کا مشاورتی اجلاس نہ ہوتا تو نہ جانے کتنے معصوم لوگوں کا رزق چھن جاتا۔ ہر کوئی دوسرے پر الزام دھرتا کہ تم اس ناکامی کے ذمہ دار ہو۔ مگر اب ایسا نہیں ہو گا۔ اب کشمیر کے تنازع کو ایک مرتبہ پھر تنازع ثابت کرنے کی کامرانی سے ہر کوئی خوش ہے۔ قوم کو سمجھا دیا گیا ہے کہ یہ ایک تاریخ ساز اور باہمت قیادت کے صدقے ہی ہو سکتا تھا۔ اب ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے ایک دائمی سرور حاصل کر سکیں اور وہاں پر ہونے والی خون ریزیوں کو بھارت کی جھنجھلاہٹ سے تعبیر کریں۔
اضافی نوٹ: ہر اچھی خبر کے ساتھ چند بری خبریں بھی جڑی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے ہر وقت سب کچھ اچھا کہیں بھی نہیں ہوتا۔ پچھلے ہفتے جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت نے درج ذیل ریکارڈ قائم کیے ہیں۔
1۔ سونا 34 ہزار روپے مہنگا ہوا۔
2۔ عوام پر 1300 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔
3۔ اخراجات میں کمی کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 135 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی۔
4۔ 400 سے زائد وفاقی ترقیاتی منصوبے ختم کیے گئے۔
5۔ ایک یونٹ بجلی اوسطاً 2 روپے 76 پیسے مہنگی کی گئی، صارفین پر 300 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔
6۔ گیس 335 فیصد مہنگی کی گئی صارفین پر 200 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔
7۔ پیٹرولیم مصنوعات 22 روپے 59 پیسے فی لیٹر مہنگی کی گئیں۔
8۔ ڈالر کی قدر 123 سے بڑھ کر 159 روپے ہو گئی۔
9۔ ایک سال میں افراط زر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔
10۔ مہنگائی 5.8 سے بڑھ کر 10.3 فیصد۔
11۔ ایک سال میں مہنگائی کا اعشاریہ دوہرا ڈیجیٹ عبور کر گیا۔
12۔ ایک سال میں زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب 72 کروڑ ڈالر کم ہوئے۔
13۔ ملکی وغیر ملکی قرضوں کا حجم ساڑھے 7 ہزار ارب روپے بڑھ گیا۔
14۔ مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری 96 فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ 50 فیصد کم ہوئی۔
15۔ بجٹ خسارہ 1100 ارب سے بڑھ کر 3 ہزار 300 ارب روپے تک جا پہنچا۔
16۔ بیروزگاری میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ بڑی کمپنیوں نے کاروبار بند کیے اورہزاروں ملازمین کی چھٹی کر دی۔
یہ سب چھوٹے چھوٹے جھٹکے ہیں جو فتح کشمیر کے بعد بےمعنی نظر آئیں گے۔