حال ہی میں بہترین ماڈل کا اعزاز حاصل کرنے والی پاکستانی ماڈل ماہا اسحاق کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اکثر ہونے والی شدید ٹرولنگ سے مجموعی طور پر ذہنی صحت تو متاثر ہوتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر کی جانے والی شدید ٹرولنگ پر ’اوپر جو ذات باری تعالیٰ ہے اس پر بھروسہ کیا جائے تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔‘
ماہا اسحاق سپر ماڈل ہیں اور حال ہی میں انہیں بہترین ماڈل کا اعزاز بھی دیا گیا ہے۔ ماہا اسحاق خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل پر آواز اٹھانے والوں میں پیش پیش رہتی ہیں، اور اس بات سے کم ہی افراد واقف ہیں کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں اور عدالت میں مقدمے بھی لڑ چکی ہیں۔
اس سوال پر کہ اعزازات کتنے اہم ہوتے ہیں پاکستانی ماڈل ماہا اسحاق نے کہا کہ ’اچھا محسوس کررہی ہیں، انہیں فخر ہے، وہ خوش ہیں، مطمئن ہیں، شاید ایسا سارے لوگ ہی محسوس کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایوارڈ سے زیادہ محنت اہم ہوتی ہے، اہم وہ لوگ ہوتے ہیں جو کام کو سراہتے ہیں، ’جیسے لیونارڈو ڈی کیپریو۔ بہت دیر سے ایوارڈ ملا، تو ایوارڈ تو مل ہی جاتے ہیں، آخر کار۔‘
ماہا نے بتایا کہ وہ وکیل ہیں اور انہوں نے یونیورسٹی آف لندن سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ کرمنل وکیل ہیں اور ڈگری کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ماڈلنگ بھی شروع کردی تھی۔
ماہا نے بتایا کہ انہوں نے کچھ مقدمے عدالت میں لڑے بھی ہیں، مگر پھر وقت کی کمی کی وجہ سے وہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ اب ان کا ارادہ ہے وہ اسے دوبارہ شروع کریں گی۔
پاکستانی معاشرے میں بالخصوص خواتین کے ماڈلنگ کو بطور پیشہ اپنانے سے جو منفی رویے جڑے ہیں ان پر ماہا کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ’صرف ماڈلنگ ہی نہیں، بلکہ ہر اس لڑکی سے جو گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہے، منفی رویے جڑے ہیں، بس ماڈلنگ سے کچھ زیادہ ہیں، لڑکی کے شادی کرکے گھر بیٹھنے کے علاوہ ہر چیز سے ہی مسائل منسلک ہیں اور عورت کسی بھی قسم کے کیریئر کو اپنانے سے ڈر ہی رہی ہے۔‘
ماڈلنگ سے وابستہ خواتین کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنانے سے متعلق ماہا کا کہنا ہے کہ عوام کی جانب سے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، لیکن اسے پھیلانا میڈیا پر منحصر ہے، اگر میگزین اور نیوز سے منسلک ادارے اسے پھیلانے سے گریز کریں تو یہ سب بدل سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر وہ خبریں چھاپی جائیں جن سے معاشرے میں بہتری آسکتی ہو، تو اس سے عوام کے نقطہ نظر میں بھی تبدیلی آہی جائے گی، بہتر ہے کہ فضول افواہیں چھاپنے کی جگہ، اصل خبروں پر توجہ دی جائے۔‘
ماہا نے بتایا کہ اب کے اپنے سوشل میڈیا پر بہت سی لڑکیاں ان سے رابطہ کرتی ہیں، وہ یہ کام کرنا چاہتی ہیں مگر انہیں ڈر ہے کہ انہیں اجازت نہیں ملے گی اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں ناکامی کا بھی ڈر رہتا ہے۔
ماہا کے مطابق سب سے اہم چیز اعتماد ہوتا ہے، جب آپ کو خود پر بھروسہ ہوگا تو آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
’میں ایک ڈرامے میں دیکھا تھا، جو ماہرہ خان کا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایک لڑکی کو کہا جاتا ہے کہ اس کی ناک ٹیڑھی ہے، آنکھیں چھوٹی ہے وغیرہ وغیرہ، تو ان سب چیزوں سے آگے نکلنا ہوگا، اگر آپ خود کو پسند کریں گے تو دوسرے بھی آپ کو پسند کریں گے۔‘
ماہا نے کہا کہ پہلے فیمینزم اور عورت مارچ وغیرہ مردوں کے خلاف ہوتے تھے، اب انہیں محسوس ہوتا کہ وہ عورت ہی عورت کی بڑی دشمن ہے، وہ دوسری عورت کے لیے زیادہ معیارات مقرر کرتی ہے۔
’ہماری ساسیں، بہو، چاچیاں، مامیاں کہتی ہیں، کہ لڑکی ایسی ہو، لمبی ہونی چاہیے، رنگ ایسا ہو، اتنی تعلیم ہو، اس سے زیادہ نہیں یا اس سے کم نہیں، اس لیے پہلے یہ تو کرلیں کہ ایک لڑکی اپنے گھر میں خود کو آرام دہ، مطمئن محسوس کرے اس کے بعد کیا پہننا ہے اور کیا نہیں اس کا معاملہ آئے گا۔‘
پاکستانی ماڈل نے ایک فلم میں بھی کام کیا ہے، جس کا نام جامن کا درخت تھا۔ اب انہوں نے ایک ڈرامے ’تم بن‘ میں بھی کام کرنا شروع کردیا ہے، جس میں ان کا کردار ایک نئے زمانے کی لڑکی کا ہے۔