’منت مراد‘: دو انتہاؤں کی داستان

انسان جس بات سے ڈر رہا ہوتا ہے، وہی کسی نہ کسی صورت اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ اب منت کے بڑے بھائی اس کی شادی تو کرنا چاہتے ہیں مگر وہی مراد کی ماں کی طرح انہیں منت کے انتخاب سے انکار ہو گا۔

منت اور مراد دونوں ہی اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کی محرومیاں ہی کسی حد تک محبت نامی کشش سے کہانی کو شادی تک لے کر جا رہی ہیں لیکن اس جائز حق کو دونوں ہی جھوٹ کے سہارے پانے پر مجبور ہیں (جیو انٹرٹینمنٹ آفیشل انسٹاگرام پیج)

’محبت زندگی چھین لیتی ہے۔‘ ڈرامے ’منت مراد‘ میں تو ہر طرح کی محبت بہت لاڈ پیار سے وبال جان بنی ہوئی ہے۔

دکھایا بھی یہی گیا ہے جسے آپ لاڈ، پیار، تحفظ اور مان کہہ رہے ہیں، یہ زندگی کے راستے کی رکاوٹیں ہیں، انسان کا سانس روک دیتی ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین کر کسی غلط اور جذباتی فیصلے تک لے جاتی ہیں۔

ایک بڑے خاندانی نظام کی کہانی چل رہی ہے۔ چار پانچ بہن بھائیوں کے گھرانے ہیں۔ ڈرامے میں زندگی والا ہلکا پھلکا اور بھاری پن سب موجود ہے۔کہانی کسی ایک پہلو کو ہی نہیں گھسیٹ رہی بلکہ زندگی کے سارے سیاہ اور سفید رنگ اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

ہیروئین منت چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے اور دوسری طرف مراد چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ دونوں ظاہر ہے منت مرادوں والی اولادیں ہیں۔ منت کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔ مراد کے ابا وفات پا چکے ہیں۔ دونوں میں تہذیبی اعتبار سے زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

دونوں ہی اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کی محرومیاں ہی کسی حد تک محبت نامی کشش سے کہانی کو شادی تک لے کر جا رہی ہیں لیکن اس جائز حق کو دونوں ہی جھوٹ کے سہارے پانے پر مجبور ہیں۔ جن رشتوں کی بنیاد میں ہی مسائل ہوں گے، وہ کانٹے ہی پیدا کریں گے۔

مراد کا خاندان پنجاب کا ایک زمیندار خاندان ہے اور کراچی جا بسا ہے جبکہ منت کا خاندان خسرو کی بچی کچی تہذیب سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں طرف روایت ہر حال میں زندہ دکھائی دے رہی ہے۔ بہت گھٹن زدہ ماحول نہیں ہے مگر جینے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی آزادی بھی نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مراد کی ماں رضیہ سلطانہ اپنے اکلوتے بیٹے کے حوالے سے ہر وقت شک میں مبتلا رہتی ہیں۔ بیٹا تو چوں بھی نہیں کر سکتا، پرفیوم تک بھی نہیں لگا سکتا، ایسے حالات میں بیٹیوں کی کیا مجال کہ کوئی فیصلہ لے سکیں مگر ایک بیٹی عطرت بغاوت کر لیتی ہے اور اپنی پسند سےکورٹ میرج کر لیتی ہے، اس کا شوہر فیصل اچھا انتخاب ثابت ہوتا ہے۔

بڑی بہن کو مراد کی ماں اپنے بھتیجے شوکت سے بیاہ دیتی ہے، جو جوا کھیلتا ہے اور بھائی مراد ہی بہن کا گھر چلانے پر مجبور ہے۔ یہاں پسند کی شادی اور والدین کی پسند کی شادی دونوں کے نتائج اگرچہ دکھائی دے رہے ہیں مگر رضیہ سلطانہ کی انا اپنی غلطی کو جواز دے ہی دیتی ہے۔

ایک بہن فضیلت امی جان کی ضد کی نذر ہو کر اور شادی کے ہندسے سے باہر نکل کر ڈپریشن کا شکا ر ہو چکی ہے جبکہ ایک ابھی چھوٹی ہے۔

ایسی صورت میں اکلوتا کماؤ بیٹا، جس پر ماں نے ساری شعوری اور غیر شعوری نگاہیں لگا رکھی ہیں، اس کی شادی صرف اس لیے کرنا چاہتی ہیں کہ کہیں وہ اپنی پسند سے شادی نہ کر لے مگر شادی تو وہ ماں کو جذباتی دھوکا دے کر اپنی پسند سے ہی کرنے جا رہا ہے۔

منت کے بھی دو منجھلے بھائیوں نے شادی کر لی ہے۔ بڑے بھائی نے والدین کی وفات کے بعد شادی نہیں کی کہ چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری ہے۔ ایک بھائی کرکٹ کھیلتا ہے، ایک ملک سے باہر مقیم ہے۔ منت کی ایک بھابھی ہے، لیکن اس کی ماں اور سہیلی جیسی ہے۔

منت پڑھائی کے بعد کیریئر بنانا چاہتی ہیں مگر ان کے بڑے بھائی نوکری کی اجازت نہیں دیتے۔ بہت مشکل سے انٹرن شپ کی اجازت ملتی ہے کہ ساتھ ہیرو بھی پہلے دن ہی عاشق بن جاتا ہے۔

انسان جس بات سے ڈر رہا ہوتا ہے، وہی کسی نہ کسی صورت اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ اب منت کے بڑے بھائی اس کی شادی تو کرنا چاہتے ہیں مگر وہی مراد کی ماں کی طرح انہیں منت کے انتخاب سے انکار ہو گا۔

یہ دو انتہائیں ہیں، جن میں زندگی بسر کرنا یقیناً مشکل ہو جاتا ہے۔

اول تو اس نفسیات کے والدین یا بہن بھائی کسی لاشعوری خانے سے چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد یا بہن بھائی کی کبھی شادی ہی نہ ہو کیونکہ انہیں حکومت کرنے کی عادت ہو چکی ہوتی ہے اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان سے اچھا ان کے پیاروں کے لیے کوئی نہیں سوچ سکتا، حالانکہ وہی اصل میں اپنوں کے لیے سب سے زیادہ مشکلات کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔

دونوں کی محرومیاں ہی کسی حد تک محبت نامی کشش سے کہانی کو شادی تک لے کر جا رہی ہیں لیکن اس جائز حق کو دونوں ہی جھوٹ کے سہارے پانے پر مجبور ہیں۔ جن رشتوں کی بنیاد میں ہی مسائل ہوں گے، وہ کانٹے ہی پیدا کریں گے۔

منت کا مراد پر دل آجانا کسی حد تک اس کے بھائی کی محبت میں کی گئی سختی کا ردعمل ہے کہ مراد اسے ایک آزاد اور خوشگوار ماحول کا خواب دیتا ہے، لیکن خواب تو خواب ہی ہوتا ہے اور بزدل مرد خواب ہی دے سکتا ہے تاکہ لڑکی حاصل کر لے۔ بہادر مرد خواب نہیں دیتا۔

اب مراد جیسا مرد اپنی تمام تر ٹھرک کا استعمال یہیں کردیتا ہے کیونکہ ماں کی جابر طبیعت کے سامنے اس کی ایک نہیں چلتی۔ یہی وجہ ہے کہ سماج میں ہر طرح کے بہادر مرد کو پسند کیا جاتا ہے کہ جو اپنے لیے کچھ کر سکتا ہے، اپنے فیصلے لے سکتا ہے وہی شادی کی ذمہ داری بھی اٹھا سکتا ہے۔

ارسہ غزل کو رضیہ سلطانہ کے کردار میں مقبولیت تو بہت ملی ہے۔ اپنے گیٹ اپ اور اردو پنجابی لہجے سے انہوں نے کردار کو منفرد رنگ بھی ضرور دیا ہے مگر ان میں پنجاب کی چوہدرائن کا روپ کہیں نہیں ملتا، جسے کہانی کے کئی سنجیدہ پہلو بھی مزاح میں بدل گئے ہیں۔ باقی کردار اور سماجی المیہ بھی اس میں دب گئے ہیں۔

بنیادی طور پر یہ ایک نفسیاتی کردار ہے جس کی وجہ سے پانچ زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں اور ان کی عزت نفس مسلسل مجروح ہو رہی ہے۔ یہ ایسا سماجی کردار ہے، جو نہ خود خوش رہتے ہیں اور نہ دوسروں کو خوش دیکھ سکتے ہیں۔

ڈائریکٹر سید وجاہت حسین ہیں اور یہ ڈراما جیو ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے۔

مصنفہ نادیہ اختر  سے ہم نے ڈرامے کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے کہا: ’کہانی لکھتے لکھتے مزاح میں ڈھلنے لگی تو ڈائریکٹر نے اس کو سپورٹ کیا کہ وہ ایسی کہانی پر کام کرنا چاہتے ہیں جہاں لڑکا لڑکی دونوں مختلف بیک گراؤنڈ سے ہیں اور ایک ہو جاتے ہیں۔ احساس ملکیت کی وجہ سے یہ گھر بس نہیں سکتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں کوئی غیر متوقع ٹوئسٹ نہیں ملے گا، کہانی چھوٹی چھوٹی صورت حال اور واقعات میں چلے گی۔‘

رضیہ سلطانہ کا کردار ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ یہ صرف ماں کی صورت میں نہیں ہوتا۔کئی گھرانوں میں ایسے باپ اور ایسے بڑے بہن بھائی بھی ملیں گے جو اپنی غیر ضروری توقعات سے اپنے بچوں اور بہن بھائیوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔

مراد کا کردار بھی ہر گھر میں ملے گا۔ بیٹے کی توجہ و پیار کو شیئر کرنا ایک پڑھی لکھی عورت کے لیے بھی مشکل ہے۔ ماں اور بیوی کو یکساں خوش رکھنا کسی ہیرو کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا ہی کردار ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی