سیاسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ جمہوریت کے پاس عوام کی طاقت ہوتی ہے، اس لیے جمہوریت میں حکومت چلانے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن بعض ممالک جہاں کچی پکی جمہوریت ہے، وہاں نظامِ جمہوریت خود ایک مسئلہ ہے، جسے ٹھونک پٹخ کر ٹھیک کرنے کے لیے آمر گاہے بگاہے آتے رہتے ہیں۔
عوامی رائے کو جمہوریت کی روح مانا جاتا ہے لیکن جہاں فیصلہ سازوں کو یہ لگے کہ ان کی رائے ہی عوام کی رائے ہے اور یہ کہ عوام کا بُرا بھلا سوچنا عوام نہیں، ہمارا کام ہے تو وہاں الیکشن کے ذریعے عوامی رائے جاننا ایک بوجھ لگا کرتا ہے، خواہ مخواہ کی مصروفیت۔
جمہوریت میں اظہارِ رائے کی آزادی ہی سب کچھ ہے، پھر چاہے وہ بیلٹ باکس میں ووٹ کی شکل میں ڈالی جائے یا نعروں کی شکل میں سڑکوں پہ گونجے۔ آمریت کو جیسے ووٹ میں لپٹی رائے پسند نہیں، بالکل ویسے ہی سڑکوں پہ طاقتوروں کو للکارتے جمہور بھی خطرہ محسوس ہوتے ہیں۔
آج کل تو کوئی مخصوص مثال دے کر سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں، پوری دنیا میں جمہور یعنی عوام فلسطین پہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ سکینڈنیویا، یورپ کے شمالی علاقے جہاں جمہوری روایات کو ایمان کی طرح اپنایا گیا ہے، یہاں احتجاج کو کسی بابرکت جمہوری رسم کے طور پہ منایا جاتا ہے۔
ناروے میں احتجاج کی آزادی کو ریاست ہر ممکن یقینی بناتی ہے۔ فلسطین کے حق میں ہزاروں نکلنا چاہتے ہیں، بالکل نکلیں۔ پارلیمنٹ کی بلڈنگ کے سامنے میگا فون پہ چیخنا چاہتے ہیں، بالکل چیخیں۔ ایسے بینر اور پوسٹر لگانا چاہتے ہیں، جس پہ حکومت کی پالیسی کو مسترد کیا گیا ہو، بالکل کریں۔ ناروے کے دوست ملک کے خلاف نعرہ لگانا ہے بالکل لگائیں، یہاں تک کہ نارویجن پارلیمنٹ کی عمارت کے سائے میں دیگر ممالک کے قومی پرچم لہرانا چاہتے ہیں تو بالکل لہرائیں۔ پولیس کی طرف سے دیے گئے مقررہ وقت میں جتنا چاہے ادھم مچائیں، رائے کی آزادی ہے، چاہے وہ رائے درست ہو یا غلط۔
ناروے کی ریاست ایک ہی وقت میں دو مخالف بیانیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے ہوکر احتجاج کرنے کی اجازت بھی دے دیتی ہے کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ احتجاج خونی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ کسی عبادت گاہ کو آگ نہیں لگائی جائے گی اور سب سے بڑھ کر ریاست، حکومت اور نجی املاک کو دونوں طرف کے مظاہرین نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسا برسوں کی جمہوری تربیت، پر امن سیاسی کلچر اور قانون کی بالادستی سے ممکن ہوتا ہے۔ مظاہرین کو یقین ہوتا کہ ریاست کے کرتا دھرتا ہمارے ووٹ سے اقتدار میں آئے ہیں، ہمارے مطالبات نہیں سنیں گے تو انہیں دوبارہ حکومت میں آنے نہیں دیں گے۔
یہ تو دنیا میں جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کے چیمپیئن ملک ناروے کی بات ہوگئی۔ اب واپس اپنے جی ٹی روڈ پہ آتے ہیں، جہاں آئے روز ٹریفک کی لمبی قطار لگی ہوتی ہے۔ مظاہرین مقتول کی میت رکھ کر احتجاج کرتے ہیں کیونکہ پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ یہ وہی جی ٹی روڈ ہے، جسے پتھر رکھ کر بلاک کرنا گویا مظاہرے کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔
آئین پاکستان جو ریاست پاکستان اور پاکستان کے شہریوں کے درمیان ایک سماجی معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے، کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ لکھنے کو تو میں وہ آئینی شق بھی لکھ دو لیکن جب آنسو گیس سے دم گھٹ رہا ہو اور پولیس کے ڈنڈے پڑ رہے ہوں تو ایسے میں سپاہی کو آئینی شق سناتے بندہ چغد لگے گا۔
پاکستان میں سیاسی مظاہرے تو احتجاج اور انتشار کے درمیان جھولتی رسی پہ سائیکل چلانے جیسے ہیں، ریاست چاہے تو مینار پاکستان بھر دے، نہ چاہے تو مظاہرین سے جیلیں بھر دے۔
اصل کم بختی غیر سیاسی مظاہرین کی ہے۔ اگر اساتذہ اپنے حقوق کے لیے کسی نکڑ پہ نکل آئیں تو واٹر کینن سے تواضع یقینی ہے۔ بینائی سے محروم افراد مظاہرہ کریں تو لاٹھی کھانے کو تیار رہیں۔لاپتہ افراد کے اہل خانہ تصویر لے کر خاموشی سے پریس کلب کے باہر جا بیٹھے تو ٹھیک، سڑکوں پہ نکل آئیں اور ریاستی اداروں کو جوابدہ کریں تو خود ان کا بھی لاپتہ ہوجانا گویا طے شدہ ہے۔
پاکستانی قوم کو 76 برسوں کے دوران جیسے ماڑی موڑی، ٹوٹی پھجی جمہوریت ملی، ویسی ہی ہماری جمہوری تربیت بھی ہے۔ مظاہرین طاقتوروں کی شہہ پہ مرکزی شاہراہوں کو گھیر لیں تو کئی کئی ماہ ڈی چوک دھرنا ہو جایا کرتا ہے۔ منہ زور مقتدرہ کا اشارہ ہو تو فیض آباد دھرنا ہو جایا کرتا ہے، لیکن اداروں کی پالیسی بدل جائے تو وہی جماعت ایک مقام پہ چار بندے اکٹھے نہیں کرسکتی۔ احتجاج ہرگز انتشار نہیں ہوتے لیکن ہمیں احتجاج کی شکل میں طاقت کا اظہار کرنا خود ریاست نے سکھایا ہے۔
پاکستان میں عام انتخابات کا موسم شروع ہونے کو ہے۔ اب مظاہرے، احتجاج، جلسے جلوس زوروں پہ ہوں گے۔ نگرانوں سے تو امید نہیں لیکن سپریم کورٹ آئین کی محافظ بن کر کھڑی ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کو یقینی بنانا ہوگا کہ عوام کو سڑکوں اور بیلٹ باکس دونوں طرح سے اظہار رائے کی آزادی مل سکے، ورنہ سلیکشن کی شکل میں الیکشنز کا کیا ہے، یہ تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔