شیر افغان ( فرضی نام) گذشتہ دو سالوں سے پشاور میں مقیم ہیں اور ہیئر ڈریسر کی دکان چلا رہے ہیں لیکن پاکستان کی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی ملک بدری کے فیصلے کے بعد انہوں نے اپنی دکان بند کرنے اور افغانستان واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی نگران حکومت آنے کے بعد ان کے خوف سے شیر افغان براستہ چمن بارڈر غیرقانونی طریقے سے پاکسان میں داخل ہوئے تھے۔ انہوں نے افغانستان میں ہیئر ڈریسر کی دکان بند کر کے پشاور میں اپنا کاروبار شروع کیا اور ساتھ میں پانچ افراد بھی بھرتی کیے۔
انہوں نے بتایا ’ہم موسیقار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور طالبان کے ڈر سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے لیکن اب ہم نے واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہاں پر یا تو ہمیں گرفتار کر لیا جائے گا اور یا اپنی مرضی سے جائیں گے تو ہم نے مرضی سے جانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن طالبان کا خوف اب بھی دل میں موجود ہے۔‘
اسی طرح پشاور کے بورڈ بازار میں پچھلے تقریباً 20 سالوں سے افغان برگر کی دکان چلانے والے خان گل (فرضی نام) نے بھی اپنی جمی جمائی دکان بند کرنے اور افغانستان واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ان کے پاس بھی پاکستان میں رہنے کے لیے کوئی قانونی دستاویز موجود نہیں ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے دکان میں کام تقریباً ختم کر دیا ہے اور واپس جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔‘
شیر افغان اور خان گل کی طرح پشاور میں مقیم سینکڑوں ایسے افغان موجود ہیں جو یہاں پر چھوٹے بڑے کاروبار کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں رہنے کے لیے قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے اب ان کو واپس افغانستان جانا پڑے گا۔ اس کی بڑی وجہ غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکی افراد کے لیے پاکستان کی جانب سے 31 اکتوبر تک کی واپسی کی ڈیڈ لائن ختم ہونا ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزینہ (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان میں 13 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ (سات لاکھ پشاور) اور دوسرے نمبر پر بلوچستان (تین لاکھ) میں رہائش پذیر ہیں جبکہ وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق رجسٹرڈ کے علاوہ تقریباً 17 لاکھ غیر قانونی طور پر افغان پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں جن کے پاس کسی قسم کی سفری یا قیام کی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق طورخم اور وزیرستان کے انگور اڈہ سرحدی مقامات کے ذریعے چھ اکتوبر سے یکم نومبر تک ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے واپس جا چکے ہیں۔
افغان پناہ گزین گذشتہ تقریباً چار دہائیوں سے پاکستان اور خصوصی طور پر پشاور میں چھوٹے بڑے کاروبار سے وابستہ ہیں اور پشاور میں بورڈ بازار کا نام بھی اسی وجہ سے ’منی کابل‘ پڑ گیا تھا کیونکہ وہاں پر زیادہ تر کاروبار افغان پناہ گزینوں کے ہیں۔
اب افغان پناہ گزینوں کی واپسی سے پشاور سمیت ملک کی معیشت پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟ اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے چند ماہرین اور تحقیقی مقالوں کا مطالعہ کیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ افغان پناہ گزینوں کے جانے سے معیشت پر مثبت پڑے گا یا منفی۔
افغان پناہ گزینوں کا پشاور کے کاروبار میں کتنا حصہ؟
افغان پناہ گزینوں کے پشاور کی معیشت پر اثرات کے موضوع پر جرنل آف ہیومینیٹیز، سوشل اینڈ مینیجمنٹ سائنسز کے 2021 میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے لیے پشاور کے مصروف کاروباری مراکز کا سروے کیا گیا تھا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کس مرکز میں کتنے افغان پناہ گزینوں کی دکانیں ہیں۔
اسی مقالے کے مطابق ’افغان جہاد‘ کے بعد آنے والے افغان پناہ گزینوں میں 60 فیصد مزدور، 20 فیصد کاروباری لوگ، پانچ فیصد ہنر مند اور 15 فیصد دیگر پیشوں سے وابستہ تھے۔ پاکستان پہنچنے والے پناہ گزین تقریباً 25 لاکھ مال مویشی بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔
مقالے کے مطابق ان مال مویشیوں میں 45 ہزار اونٹ اور 25 ہزار گدھے کاروباری مقاصد کے لیے لائے گئے تھے۔ اس وقت پناہ گزین جب پشاور سمیت ملک کے دیگر حصوں میں آباد ہونا شروع ہوگئے تو انہوں نے مختلف کاروباروں میں اپنے لیے جگہ بنا لی۔
اسی طرح یہ افراد افغانستان سے سمگل شدہ امپورٹڈ سامان کے کاروبار سے بھی وابستہ ہو گئے اور پشاور اس تجارت کے لیے ایک مرکزی منڈی بن گئی۔ یوں آہستہ آہستہ ان پناہ گزینوں نے دیگر کاروباروں میں بھی اپنا لوہا منوانا شروع کر دیا اور یوں زیادہ تر پناہ گزینوں نے بیرونی امداد کی بجائے خود کمانا شروع کر دیا۔
اس مقالے کے لیے قصہ خوانی بازار، افغان کالونی، پشاور کینٹونمنٹ اور یونیورسٹی ٹاؤن کا سروے کیا گیا تھا۔ قصہ خوانی کی بات کی جائے تو مقالے کے مطابق اس بازار میں ’پگڑی کی رقم‘ (یہ عمومی طور پر کوئی دکان رینٹ پر لینے کے لیے ایڈوانس میں رقم دی جاتی ہے جس کو یہاں مقامی سطح پر ’پٹکے‘ اور اردو میں پگڑی کہا جاتا ہے) پانچ سے 20 لاکھ روپے تک ہے۔
مقالے کے مطابق قصہ خوانی بازار میں قالین کی صنعت سے وابستہ افراد میں91 فیصد افغان پناہ گزین تھے جبکہ چمڑے اور جوتوں کے کاروبار سے وابستہ افراد میں سے 33 فیصد کا تعلق بھی افغان باشندوں سے تھا۔
اسی طرح 29 فیصد ہوٹل اور ریسٹورنٹ کے کاروبار میں افغان پناہ گزینوں کا حصہ تھا جبکہ کپڑوں کے کاروبار میں 15 فیصد افغان تھے۔
افغان کالونی میں زیادہ تر استعمال شدہ اشیا بیچی جاتی ہیں جہاں 105 دکانوں میں صرف دو دکانین مقامی افراد جبکہ باقی سب افغان پناہ گزینوں کی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور کینٹونمنٹ کی بات کی جائے تو اس علاقے میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد کم رہی لیکن پھر بھی مختلف کاروبار میں ان کا حصہ موجود تھا۔ کینٹونمنٹ علاقے میں مقالے کے مطابق 29 فیصد کپڑے کے کاروبار کرنے والے افغان شہری تھے جبکہ کارپٹ اور اینٹیکس (نایاب اشیا) کے کاروبار کرنے والوں میں 50 فیصد افغان پائے گئے اور اسی طرح دست کاری سے وابستہ افراد میں 31 فیصد افغان تھے۔
اس مقالے میں تیسرے نمبر پر یونیورسٹی ٹاؤن کا سروے کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی ٹاؤن پشاور کے مصروف اور پوش مقامات میں شامل ہے۔ یہ ناصر باغ اور کچا گڑھی کے مقام پر پناہ گزینوں کے قریب بھی واقع ہے جب کہ اسی علاقے میں یو این ایچ سی آر کا دفتر بھی موجود ہے۔
اس علاقے میں کپڑے کے کاروبار سے وابستہ افراد میں 50 فیصد، کارپٹ صنعت میں 83 فیصد جبکہ ٹیلرنگ میں 53 فیصد افغان پناہ گزین شامل تھے۔
معشیت پر کیا اثر پڑے گا؟
خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر اور پاک افغان تجارت کی وفاقی کمیٹی کے سابق رکن شاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان پناہ گزین جب سے یہاں آئے ہیں تو انہوں نے چھوٹا بڑا کاروبار شروع کیا اور اسی سے وہ گھر کا خرچہ چلاتے تھے۔
شاہد حسین کے مطابق اگر کسی کے پاس کم سرمایہ تھا تو وہ مثال کے طور پر فروٹ منڈی جاکر پھل خرید کر ہتھ ریڑھی لگا کر پھل بیچتے تھے جبکہ زیادہ سرمایہ رکھنے والے افغان پناہ گزین بڑے کاروبار سے وابستہ ہوگئے تھے۔
شاہد کے مطابق اب جب یہ واپس افغانستان جائیں گے تو وہاں وہ دوبارہ زیرو سے کاروبار شروع کریں گے لیکن یہاں کی میعشت پر بھی اس کا اثر ضرور پڑے گا کیونکہ یہاں پر مختلف مد میں وہ ٹیکس دیتے تھے اور معشیت میں ان کا ایک کردار ضرور تھا تاہم یہ اثر زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’افغان پناہ گزین جو خلا چھوڑیں گے تو پاکستان اور صوبے کے مختلف اطراف سے لوگ یہی جگہ دوبارہ بھر دیں گے۔‘
شاہد حسین نے بتایا کہ اس میں ایسے فغان پناہ گزین بھی تھے جو افغانستان اور پاکستان کے مابین درآمد برآمد کا کاروبار کرتے تھے، ’تو میرے خیال میں وہ کاروبار جاری رہے گا کیونکہ وہ تو پہلے بھی افغانستان سے مال لاتے تھے اور پاکستان سے وہاں پر بھیجتے تھے تو ابھی بھی ایسا ہی ہوگا۔‘
ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس میں معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس معاملے کو دو پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں ایک یہ ہے کہ کیا افغان پناہ گزینوں کی واپسی واقعی حقیقت میں مکمل ہوسکتی ہے اور یا یہ ایک عارضی واپسی ہے اور یہ عمل مکمل نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے جو لگتا ہے تو یہ بظاہر واپسی لگ رہی ہے لیکن حقیقت میں سب کو واپس بھیجنا بہت مشکل ہوگا اور جانے والوں کی اکثریت کا یہاں پر باقاعدہ کوئی ذرائع معاش موجود نہیں تھا اور جن کے یہاں پر باقاعدہ طور پر کاروبار ہے تو قوی امکان یہی ہے کہ وہ بہت مشکل ہے کہ واپس جائیں گے۔‘
ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ اس سارے معاملے کو ان تمام زاویوں سے دیکھنا پڑے گا اور اس میں شک نہیں ہے کہ اس سے معیشت اور خصوصی طور پر پشاور میں ایک حد تک خلا تو پیدا ضرور ہوگا لیکن یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ حقیقت میں اگر تمام پناہ گزینوں کو نکالا جاتا ہے تو تب ہی اس کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’خیبر پختونخوا سمیت پنجاب اور سندھ میں افغان پناہ گزین معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں اور ان سب کو نکالنا بہت مشکل ہے لیکن نکالنے کے بعد اس کے معاشی اثرات کو دیکھا جائے گا۔‘
ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ ’پوری دنیا میں غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجا جاتا ہے اور کسی بھی ملک میں غیر قانونی تارکین وطن یہ سمجھتے ہیں کہ کام کے دوران ان کو کسی بھی وقت پکڑ کر واپس بھیجا جا سکتا ہے اور یہ ابھی پاکستان میں شروع ہوگیا ہے لیکن مجموعی طور پر معاشی صوت حال اس سے بڑی سطح پر اثرانداز نہیں ہوتی۔‘
ڈاکٹر ناصر کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی واپسی سے ان کی معاشی زندگی پر اثرات ضرور ہوں گے۔ ’یہاں خلا بھی پیدا ہوگا۔ قلیل مدت میں شاید ہمیں مقامی معیشت پر کوئی اثر نظر نہ آئے لیکن طویل مدت میں اگر جو کام یہ چھوڑ کر چلے گئے اور اس کی جگہ مقامی کسی شخص نے نہ لی تو اس کے اثرات کے بارے میں بعد میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔