پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو دی گئی ڈیڈلائن کے خاتمے کے بعد انخلا کا سلسلہ جاری ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ہولڈنگ سینٹرز میں دستاویزات نہ رکھنے والے غیر ملکی شہریوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جا رہا ہے، لیکن ضلع خیبر میں لنڈی کوتل کے سینٹر پر موجود لوگ سہولیات کی عدم فراہمی کا شکوہ کر رہے ہیں۔
حکومت پاکستان نے ملک بھر میں 49 ہولڈنگ سینٹرز قائم کیے ہیں، جہاں سے غیر ملکی شہریوں کو ان کے وطن روانہ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ہولڈنگ سینٹرز میں موجود افراد کو حکومت کی جانب سے تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
تاہم لنڈی کوتل میں قائم ہولڈنگ سینٹر میں موجود افغان شہری بسم اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہاں ہمیں کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ نہ واش رومز ہیں اور نہ پانی اور خوراک کا بندوبست ہے۔ اس سردی میں بوڑھے، بچے اور خواتین نے کھلے آسمان تلے رات گزاری۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری وطن واپسی میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، انٹری اور رجسٹریشن کا عمل سست روی کا شکار ہے، لہذا کلیئرنس کے عمل کو تیز کیا جائے۔‘
پاکستان اور افغانستان کی سرحد طورخم بارڈر پر ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر یاسر عرفات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک ایک لاکھ 46 ہزار کے قریب غیر قانونی مقیم افراد، جن کا تعلق افغانستان سے تھا اور جو پاکستان کے مختلف اضلاع میں آباد تھے، افغانستان جاچکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لنڈی کوتل کے ہولڈنگ سینٹر میں حکومت پاکستان کی جانب سے ضروری کارروائی کے لیے تمام ادارے تعینات کیے گئے ہیں، جن میں نادرا کی 12 وین شامل ہیں، جو ہر فرد کی رجسٹریشن کروا کے ٹوکن دیتے ہیں اور پھر کسٹم کا عملہ جامع تلاشی کے بعد ایف آئی اے کا عملہ ٹوکن پر ایگزٹ سٹیمپ لگاتا ہے اور ہولڈنگ سینٹر سے فلائنگ کوچ کے ذریعے طورخم زیرو پوائنٹ تک پہنچا کر انہیں افغانستان منتقل کیا جاتا ہے۔
تاہم یہاں موجود افغان شہری اس سارے عمل میں سست روی کی شکایت کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں جلد از جلد طورخم کے راستے ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
لنڈی کوتل کے ہولڈنگ کیمپ میں موجود محمد زمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم کراچی میں رہائش پذیر تھے اور حکومت پاکستان نے ہمیں ملک سے نکالنے کے لیے ایک مہینے کی مہلت دی تھی۔ راستے میں کوئی مشکل نہیں تھی لیکن جب سے یہاں لنڈی کوتل ہولڈنگ کیمپ پہنچے ہیں، سب سامان کھلے آسمان تلے پڑا ہے، سردی بھی زیادہ ہے، رات یہاں گزاری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’دونوں حکومتوں پاکستان اور افغانستان سے مطالبہ ہے کہ طورخم کے راستے باعزت طریقے سے ہماری وطن واپسی کو یقینی بنائیں۔ افغانستان میں سردی کا موسم ہے اور وہاں پر ہمارا اپنا گھر بار نہیں ہے، ہم وہاں پر کسی ہمسائے کے ساتھ رہائش اختیار کریں گے۔‘
اسلام آباد سے آئے ہوئے بسم اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہم بہت ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں، کھانے اور دیگر خوراک کی اشیا دی گئی ہیں، گذشتہ رات سردی کے باعث بچے بیمار ہوئے۔ یہاں پر خواتین اور بچے مشکل سے گزر رہے ہیں۔‘