سب اس لڑکی کو لعن طعن کر رہے تھے جس نے کچھ روز قبل کالج کی ایک سنسان جگہ پر ایک لڑکے سے بات کرنے کی کوشش کی تھی اور رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی۔
فوری طور اس لڑکے اور لڑکی کو وہاں سے ڈانٹ پھٹکار کرتے ہوئے ادارے کی مرکزی عمارت کی طرف لایا گیا اور لڑکے کو کالج سے بے دخل کر کے اس حرکت کی کڑی سزا سنائی گئی۔
لڑکی سے کہا گیا کہ اس جرم کی پاداش میں اپنے والدین کو لائے اور ادارے کے تقدس کو پامال کرنے کے جرم کا اقرار ان کے سامنے کرے، ساتھ میں رسمی معافی تلافی بھی ضرور کرے تبھی اس کی جان کی خلاصی کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے ورنہ وہ ایسے ہی مطعون رہے گی یا پھر اس کا بھی داخلہ منسوخ کر کے اسے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔
یہ تو ہے کہانی کا وہ رخ جو ادارے کی انتظامیہ اور دیگر افراد نے دیکھا اور سمجھا، جبکہ اس لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ پانی بھرنے کے لیے واٹر فلٹر کی طرف گئی تھی کہ لڑکے نے اس کے پیچھے آ کر وہاں اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ وہ لڑکا کافی دنوں سے اسے پریشان کر رہا تھا لیکن اس نے ڈر کے مارے کسی کو بتایا نہیں، آج اس نے اکیلا پا کر وہ اس کے قریب آ گیا۔
ابھی اتنا ہی ہوا تھا کہ کسی گارڈ نے انہیں دیکھ لیا۔ ساتھ ہی وہ ڈیوٹی پر موجود دیگر اساتذہ کو بھی لے آیا اور پھر کسی نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا اور اسے مسلسل بےعزت کیا جاتا رہا۔
اب وہ لڑکی اور اس کی ماں دونوں خوفزدہ تھیں کہ لڑکی کی تعلیم مکمل نہیں کرنے دی جائے گی اور بیٹی کو ممکنہ طور پر شاید باپ کے تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑے۔
یہ سب سنتے وقت میرے ذہن میں ان سارے مرد اساتذہ کے جملے گونجتے رہے کہ ’فلاں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا،‘ ’غلط حرکتیں کر رہی تھی،‘ ’ایسی لڑکیوں نے گند پھیلایا ہوا ہے،‘ ’انہیں کڑی سزا ملنی چاہیے‘ اور بہت سی ایسی باتیں جو کوئی کبھی اپنے بچوں کے لیے شاید ہی استعمال کرتا ہو، اس لڑکی کے لیے ہر کوئی کہہ رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر مجھے اپنی یونیورسٹی کا دوسرا سمیسٹر یاد آ رہا تھا کہ جب ایک بار کسی گارڈ نے میری ہاسٹل وارڈن سے میرے تھوڑا لیٹ آنے پر جھوٹ بولا کہ یہ کسی لڑکے کے ساتھ یونیورسٹی میں موٹر سائیکل پر گھوم رہی تھی۔
اور بالکل ایسے ہی جارحانہ انداز میں اس وارڈن صاحبہ نے مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی یہ جملہ گردی بھی جاری رہی کہ ’تم جیسی لڑکیاں ماں باپ کا منہ کالا کروانے آتی ہیں۔‘
میرے احتجاج پر اس خاتون نے بھی مجھے ’رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر‘ اس قدر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے پر خوب لعن طعن کیا۔
میں مسلسل روتے ہوئے بتا رہی تھی کہ میرا منی آرڈر آیا تھا ابو نے پیسے بھیجے تھے وہ ریسیو کرنے گئی تھی اور ڈاکخانے سے واپسی پر رکشہ نہیں ملا تو دو میل پیدل چل کر آ رہی ہوں۔
لیکن بالکل اسی طرح وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھی۔ میں نے مٹھی میں دبے تین ہزار روپے بھی اسے دکھائے ساتھ لگی رسید بھی، لیکن میرا موبائل مجھ سے چھین لیا گیا اور میرے ڈیپارٹمنٹ میں خبر پہنچا دی گئی۔
میں بھی ایسے ہی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی۔
تب سے آج تک ان رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے قصوں کی عمومی حیثیت فوراً سمجھ میں آ جاتی ہے۔ لیکن یہ گالیاں دینے والے اور الزام لگانے والے ایسے دودھ کے دھلے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ انسانوں کو انسان ہونے کا مارجن بھی دینے کو کیوں نہیں راضی ہوتے؟
یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ آپ کا جارحانہ رویہ کسی کی زندگی بھر کی محنت کو ایک لمحے میں رائیگاں کرنے کو کافی ہوتا ہے؟ پھر ایسے معاشرے میں جہاں غیرت کے نام پر قتل کو عین جائز قرار دیا جاتا ہو، وہاں آپ کسی عورت ذات پر انگلی اٹھاتے وقت لمحہ بھر کو بھی نہیں لرزتے؟
ہم نے تو اپنے سادہ ان پڑھ ماں باپ کو دیکھا ہے جو کسی جسم فروش عورت کو بھی گالی دینے سے روک دیتے ہیں کہ کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہے۔
انہوں نے کسی انسان کے آنکھوں دیکھے جرم کو بھی تب تک درگزر کرنے کا سبق دیا جب تک کہ وہ کسی انسان کی جان، مال اور عزت کے لیے خطرہ نہیں بنتا۔ آپ تو باعزت اور باشعور لوگ ہیں آپ کو پتھر مارنے والے ہجوم میں تو شامل نہیں ہونا چاہیے۔
آپ ذرا ٹھہر کے سوچیے تو سہی کہ ان جیسی ’رنگے ہاتھوں‘ پکڑے جانے والی لڑکیوں کی کہانیوں کا دوسرا رخ بھی تو ہو سکتا ہے، انہیں صفائی کا موقع تو دیں، اپنا موقف پیش کرنے کا حق تو دیں۔
آپ کی نفرت، تقوے کا غرور اور باعزت ہونے کا زعم اگر دوسروں کی زندگی تباہ کرنے، بدنام کرنے اور انہیں نشان عبرت بنانے جیسی سیڑھیاں پا کر ہی تشکیل پایا ہے تو اس کے مصنوعی پن پر آپ کا دل کھٹکتا کیوں نہیں۔