کوئٹہ سنڈیمن سول ہسپتال بلوچستان میں کانگو وائرس سے ایک ڈاکٹر جان سے جا چکے ہیں جبکہ 12 ڈاکٹرز تاحال اس وائرس سے متاثر ہیں۔
بلوچستان میں کانگو وائرس کا پہلا کیس اس وقت رپورٹ ہوا جب بلوچستان کے ضلع پشین سے ایک مریض کو علاج کے لیے کوئٹہ کے سول ہسپتال لایا گیا۔
ڈاکٹروں کے مطابق متاثرہ مریض کے ٹیسٹ سیمپل 21 اکتوبر کو لیے گئے اور 24 اکتوبر تک ٹیسٹ ریزلٹ پازیٹیو آیا، جبکہ کانگو وائرس کا یہ متاثرہ مریض صحت یاب ہو کر ہسپتال سے رخصت ہو چکا ہے لیکن جس طبی عملے اور ڈاکٹروں نے کانگو وائرس میں مبتلا اس مریض کا علاج کیا تھا وہ بھی اب اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
کوئٹہ سنڈیمن سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اسحاق پانیزئی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اب تک ایک نرس اور ایک فارماسسٹ سمیت بارہ ڈاکٹرز کے کانگو وائرس ٹیسٹ مثبت آئے ہیں، جبکہ ضلع آوارن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکور اللہ اس مرض کی وجہ سے جان سے گئے۔‘
ڈاکٹر اسحاق پانیزئی کے مطابق متاثرہ ڈاکٹروں کو بہتر علاج کی غرض سے کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان ڈاکٹرز کو حکومت بلوچستان نے کراچی منتقل کیا ہے۔
ڈاکٹر اسحاق نے بتایا ’اس کے بعد کچھ اور مریض ہسپتال لائے گئے جن کے سر درد، بخار کے ساتھ ساتھ گھٹنوں میں درد اور جسم میں درد کی شکایت تھی، جب ان کے ٹیسٹ کیے تو رزلٹ مثبت آئے۔‘
عوام کی بہتری اور کانگو وائرس کی روک تھام کی خاطر کوئٹہ سول ہسپتال میں وہ تین وارڈز مکمل بند کر دیے گئے ہیں جن میں کانگو وائرس کے مریض لائے گئے تھے۔
محمد اسحاق پانیزئی کے مطابق شروع میں انہوں نے 18 ٹیسٹ کے سیمپلز لیے جن میں 10 مثبت آئے اور وہ سب ڈاکٹر تھے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر عارف خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کراچی میں زیر علاج 11 ڈاکٹرز میں سے چار کی حالت تشویسناک ہے۔
’بلوچستان کے سب سے بڑے ہسپتال میں صف اوّل کے سپاہی یا ڈاکٹرز کو سہولیات موجود نہیں ہیں، ہم نے سہولیات کے فقدان کے باعث متاثرہ ڈاکٹروں کو کراچی مجبوراً منتقل کیا۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے ہسپتالوں میں سہولت یافتہ لیبارٹریز کے ساتھ آئی سی یو بننا چاہیے۔ ڈاکٹر عارف نے مزید بتایا کہ انہوں نے تین دن تک ہسپتال میں دیگر میڈیکل وارڈز میں احتجاجاً خدمات بند کر دی ہیں اور اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ اپنا احتجاج مزید بڑھائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر عارف نے مزید بتایا کہ اس وقت کوئٹہ میں مزید تین مریضوں کے کیسیز پازیٹو آئے ہیں جن کا علاج کوئٹہ کے فاطمہ جناح ہسپتال میں جاری ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر یاسر اچکزئی نے بتایا کہ ’یہ مرض قابل علاج ہے، ہمارے پاس ڈاکٹرز موجود ہیں مگر ہمارے ہاں آئی سی یو کی کمی ہے اور لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو کوئٹہ سے کراچی منتقل کر دیتے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس وائرس کا علاج لیبارٹری پر منحصر ہے کیونکہ مریض کا بار بار ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور اس ٹیسٹ کے رزلٹ کے مطابق علاج کیا جاتا ہے، ڈاکٹر یاسر اچکزئی کہتے ہیں کہ ’اس آؤٹ بریک میں ڈاکٹرز، عوام اور طبی عملے کو سب سے ہسپتال میں رش کم کرنا اور مریض کے ساتھ بلاوجہ لوگوں کا آنا کم کرنا چاہیے، ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس سٹاف کو دستانے، ماسک اور حفاظتی کٹ پہننا لازمی ہیں۔‘
وفاقی وزارت صحت نے کانگو وائرس کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے ہدایات جاری کی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ علاج کے دوران وارڈ میں ڈاکٹر حفاظتی لباس ضرور پہنیں، جلد اور کپڑوں پر کیڑے مار دوا کا استعمال کریں۔
محکمہ صحت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی علاقوں میں جانوروں کو سنبھالتے وقت دستانے اور دیگر حفاظتی لباس ضرور پہنا جائے اور جانوروں کو ذبح کرنے سے دو ہفتے پہلے کیڑے مار ادویات کے ساتھ معمول کے مطابق سپرے کریں، بیمار افراد کی دیکھ بھال کرتے وقت حفاظتی سامان اور باقاعدگی سے ہاتھ دھونے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔