فلسطین پر کشمیر خاموش ہے

ایک صحافی کے مطابق کشمیر کی حالت اُس پریشر ککر جیسی ہے جس میں بھاپ جمع ہو رہی ہے، فلسطین پر احتجاج کرنے سے شاید یہ بھاپ کچھ کم ہوجاتی۔

27 اکتوبر، 2023 کو سری نگر میں صوفی بزرگ شیخ سید عبدالقادر جیلانی کے عرس پر کشمیری مسلمان دعائیں مانگ رہے ہیں (اے ایف پی/ توصیف مصطفیٰ)

70 سال کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب غزہ پر جاری اسرائیلی بربریت پر کشمیری سڑکوں پر نہیں نکلے، مساجد میں اماموں نے مزاحمتی خطبے نہیں پڑھے، گھروں کی چھتوں پر فلسطینی پرچم نہیں لہرائے گئے اور نوجوان جتھوں نے گلی کوچے بند نہیں کیے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

کشمیر اور فلسطین کا گہرا تعلق ہے۔ دونوں قومیں بیک وقت متنازع بن گئیں، دونوں کے عوام 70 سال سے مر رہے ہیں، پٹ رہے ہیں، اپنوں اور پرایوں کے لیے شطرنج کے مہرے بن گئے ہیں اور دونوں کی تقدیر اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اُلجھی پڑی ہیں۔

گذشتہ 70 برسوں میں اگر کشمیر کو پانچ حصوں میں بانٹا گیا تو فلسطین کو جنوب شمال میں تقسیم کے بعد سات لاکھ سے زائد خاندانوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔

اس وقت جو آبادی بچی ہوئی ہے اُس پر بم برس رہے ہیں۔ پانی، خوراک، ادویات، سکول، ہسپتال اور گھر، سب چھینے جا رہے ہیں۔

دنیا کی تقریباً آٹھ ارب آبادی میں ڈیڑھ کروڑ کشمیری شامل ہیں جو ساتوں پہر میڈیا پر غزہ کے بچوں، عورتوں اور بزرگوں پر اسرائیلی جارحیت کی تصویریں دیکھ رہے ہیں، مگر وہ ماضی کی روایات کے برعکس آج احتجاج نہیں کر رہے۔

ایسا کیوں؟ یہ سوال ہر زبان پر ہے۔ کیا یہ معاشرہ مُردہ ہو چکا یا پھر اُف کرنے کی سکت کھو چکا ہے یا وہ اپنی دنیا میں اتنا محو ہے کہ باقی دنیا سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔

اندرون شہر نوہٹہ کے نواز احمد کہتے ہیں کہ غزہ کے حالات دیکھ کر ہمارے جگر چھلنی ہیں، جمعے کی نماز پر ہم نے پُرامن احتجاج کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، انتظامیہ نے پہلے ہی جامع مسجد کے گیٹ کو بند کردیا، میر واعظ عمر فاروق کو ابھی چند ہفتے پہلے ہی چار سال کی قید کے بعد رہائی ملی تھی اور وہ جمعے کو ہر حال میں جامع مسجد میں حاضر رہتے ہیں پچھلے جمعے کو وہ ضرور فلسطین کی صورت حال پر بات کرتے مگر اُن کو گھر سے باہر نہیں آنے دیا، ہماری حالت فلسطینیوں سے بہتر نہیں۔ ہماری زبان پر تالے ہیں مگرہم فلسطینیوں کے کرب سے غافل نہیں ہیں۔‘

وادی کے کئی علاقوں میں چند درجن لوگوں نے سڑکوں پر آنے کی جرات کی جیسے بڈگام میں ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا جہاں شعیہ برادری کی خاصی تعداد آباد ہے، مگر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرہ بازی کے چند گھنٹوں بعد جلسے کو منتشر ہونا پڑا۔

چند ہزار افراد پر مشتمل احتجاجی جلسہ شعیہ آبادی والے علاقے کرگل میں ہوا جو اب لداخ کی یونین ٹریٹری کا حصہ  ہے اور سکیورٹی کے سخت پہرے میں عوام کو اپنی بھڑاس نکالنے کی اجازت دی گئی تھی۔

جموں و کشمیر میں بیشتر مساجد اور خانقاہیں سرکاری وقف بورڈ کے زیر کنٹرول ہیں جس کی سربراہ بی جے پی کی رہنما ڈاکٹر درخشاں اندرابی ہیں۔

بعض مساجد کے اماموں نے میڈیا کے مطابق وقف بورڈ پر الزام لگایا کہ اُنہیں زبانی طور پر تنبیہ کی گئی ہے کہ فلسطین پر کوئی بات نہیں کرنی، نہ مساجد میں اور نہ سڑکوں پر، مولوی صاحبان نے روزگار بچانے کے لیے خاموشی کو ترجیح دی۔ بی جے پی کا اس پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ 

قومی دھارے سے وابستہ سیاسی جماعتوں نے بھی غزہ کی صورت حال پر خاموش رہنے کو ترجیح دی گو سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ریلی نکالنے کی سعی بھی کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا میں ہزاروں مسلمانوں نے ہندوتوا کی اسرائیلی حملوں کی حمایت میں سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم اور مسلم مخالف بحثوں کے باوجود کئی ریاستوں میں احتجاجی جلوس نکالے، خاص طور سے اُن ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی سرکار نہیں۔

جموں میں بی جے پی کے کارکن اروند شرما کہتے ہیں کہ ’مسلمانوں کے ساتھ اگر ہم بھی احتجاج کرتے تو کیا غزہ کی صورت حال میں کوئی بدلاؤ ہوتا، نہیں، ہر ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے جیسے اسرائیل کی ہے۔

’مسلمانوں کو حماس کی دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہیے، جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اُس کی ذمہ داری حماس پر ڈالنی چاہیے، حماس کی وجہ سے اسرائیل بم برسانے پر مجبور ہوا۔‘

عالمی میڈیا کی کئی رپورٹوں میں انڈین سوشل میڈیا کی اسرائیل کے حق میں چلائی جانے والی عوامی مہم پر حیرانی ظاہر کی جا رہی ہے اور اکثر نے اس کو بی جے پی حکومت کی سخت گیر پالیسی کا نتیجہ بتایا جو مغربی ملکوں سے اس لیے مختلف ہے کہ بعض سرکاروں کی اسرائیل نواز پالیسی کے برعکس عوامی ردعمل اسرائیلی حملوں کے خلاف ہے جس کی نظیر لاکھوں مظاہرین پر مشتمل احتجاجی جلوسوں سے ملتی ہے۔

کلگام کے آزادی پسند رہنما (نام سکیورٹی کے باعث ظاہر نہیں کیا گیا) کہتے ہیں کہ غزہ کے حالات پر ہم خون کے آنسو رو رہے ہیں، ہم پر ایسی پابندیاں عائد کردی گئیں ہیں کہ گھر کے اندر اور باہر موت کی تلوار ہمیشہ سر پر لٹکتی رہتی ہے، یہ اللہ کی جانب سے آزمائش ہے، جب تک سانس ہے ہم یہ کرب سہتے رہیں گے مگر جس طرح غزہ کے لوگ اتنی بربریت کے باوجود اپنی زمین سے جُڑے ہیں اسی طرح ہم بھی اپنے وطن کی خاطر سب کچھ سہہ رہے ہیں۔‘

بقول ایک صحافی: ’کشمیر کی حالت اُس پریشر ککر جیسی بنتی جا رہی ہے جس میں سٹیم جمع ہو رہی ہے، اگر اس سٹیم کو ڈھکن اُٹھا کر کم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو یہ پریشر ککر پھٹ جائے گا اور اُس وقت کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا، فلسطین پر احتجاج کرنے سے شاید یہ سٹیم کچھ کم ہوجاتی۔ سخت گیر پالیسی سے حالات بہتر نہیں بلکہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور جس پر پردہ داری بارود کا کام کرسکتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ