فلسطینی وزارت صحت نے ہفتے کو کہا ہے کہ غزہ کے الشفا ہسپتال میں بجلی منقطع ہونے، آکسیجن اور ادویات کی کمی کے باعث 39 بچوں کو موت کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
وزیر صحت نے ابتدا میں کہا تھا کہ تمام 39 شیر خوار بچوں کی موت ہو گئی ہے تاہم بعد میں وزرات صحت نے ایک بیان میں تصحیح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان بچوں میں سے ایک کی موت ہو گئی ہے جبکہ دیگر 39 کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اموات آکسیجن یا ادویات نہ ملنے کے باعث ہوئی ہیں کیونکہ وہاں کی بجلی کاٹ دی گئی ہے۔
غزہ پر شدید حملوں میں ہزاروں اموات اور ہسپتالوں کے قریب لڑائی میں شدت کے بعد اسرائیل پر بین الاقوامی برادری کے ساتھ ساتھ اپنے اہم اتحادی امریکہ کا بھی دباؤ ہے کہ وہ غزہ میں شہریوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق گذشتہ پانچ ہفتوں کے دوران ساحلی علاقوں پر بمباری کے دوران مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 11 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعے کو انڈیا کے دورے کے موقعے پر نامہ نگاروں کو بتایا، ’بہت سے فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ گذشتہ ہفتوں میں بہت سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘
غزہ شہر کے بھرے ہوئے ہسپتالوں کے قریب جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات لڑائی شدت اختیار کر گئی، جہاں فلسطینی حکام کے مطابق دھماکے اور فائرنگ ہوئی ہے۔
الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ کے بقول، ’اسرائیل اب غزہ شہر کے ہسپتالوں پر جنگ چھیڑ رہا ہے۔‘
انہوں نے بعد میں بتایا کہ غزہ شہر میں البراق سکول پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 25 افراد مارے گئے۔ سکول میں ان لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی جن کے گھر تباہ ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان نے بتایا کہ الشفا ہسپتال میں ایندھن ختم ہونے کے بعد طبی سرگرمیاں مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں۔
غزہ میں حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کی علی الصبح علاقے کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا کے صحن میں میزائل گرے جس سے ہسپتال کو نقصان پہنچا اور مبینہ طور پر ناصر رانتیسی پیڈیاٹرک کینسر ہسپتال میں آگ لگ گئی۔
اسرائیلی فوج نے بعد میں کہا کہ غزہ میں فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے داغا گیا میزائل الشفا ہپستال میں گرا۔
بے گھر ہونے والے افراد سمیت مریضوں اور طبی عملے سے بھرے ہوئے یہ ہسپتال شمالی غزہ میں ہیں، جہاں اسرائیل کے بقول حماس کے عسکریت پسند موجود ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی نے دعویٰ کیا کہ حماس کا ہیڈکوارٹر شفا ہسپتال کے تہہ خانے میں ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ ہسپتال اپنے محفوظ ہونے کی حیثیت کھو چکا اور ایک جائز ہدف بن سکتا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس ہسپتالوں کے نیچے سرنگوں میں ہتھیار چھپاتی ہے۔ حماس اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے بتایا کہ شفا ہسپتال میں جو طبی رضا کار ان کے گروپ کے ساتھ رابطے میں تھے انہیں اپنی حفاظت کے لیے ہسپتال چھوڑنا پڑا ہے۔
ٹیڈروس نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’ہسپتال میں پناہ لینے والے ہزاروں افراد میں سے کئی سکیورٹی خطرات کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں جبکہ بہت سے اب بھی وہاں موجود ہیں۔‘
'کوئی بھی محفوظ نہیں'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے کہا کہ اسرائیل نے شفا ہسپتال کی عمارتوں پر پانچ بار بمباری کی۔
انہوں نے فون پر بتایا، ’صبح سویرے ہونے والے حملے میں ایک فلسطینی مارا گیا اور متعدد زخمی ہوئے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے تصدیق کی جانے والی ویڈیوز میں خوف و ہراس کے مناظر اور لوگوں کو خون میں لت پت دکھایا گیا ہے۔
اس سے قبل طبی عملے نے بتایا تھا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ناصر رنتیسی ہسپتال کے ساتھ ساتھ القدس ہسپتال کے ارد گرد بھی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔
فلسطینی ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے القدس ہسپتال پر فائرنگ کی اور پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جس میں ایک شخص مارا گیا اور 28 زخمی ہوئے، جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاڈ ایردان نے کہا کہ اسرائیل نے جنوبی غزہ میں ہسپتالوں کے قیام کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔
اسرائیل نے 12 اکتوبر کو غزہ میں تقریباً 11 لاکھ افراد کو زمینی حملے سے قبل جنوب کی طرف جانے کا حکم دیا تھا۔