بلوچستان پولیس کے ایک سینیئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’حق دو تحریک‘ کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن نظر بندی ختم ہونے کے بعد واپس گوادر روانہ ہو گئے ہیں۔
ڈی آئی جی بلوچستان عبدالحئی بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مولانا ہدایت الرحمٰن نظر بندی ختم ہونے کے بعد ہفتے کی صبح واپس گوادر روانہ ہو چکے ہیں۔
تاہم انہوں نے ان کی نظر بندی کی وجوہات کے حوالے سے کوئی موقف نہیں دیا۔
جماعت اسلامی بلوچستان کے نائب امیر عبدالکبیر شاکر کے مطابق حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن کو دو دن قبل نو نومبر کو جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر الفلاح ہاؤس کوئٹہ میں اس وقت نظر بند کیا گیا جب وہ 20 اکتوبر کو پاکستان افغانستان سرحد پر پاسپورٹ کی شرط کے خلاف شروع ہونے والے دھرنے میں شرکت کرنے کی غرض سے کوئٹہ پہنچے تھے۔
عبدالکبیر شاکر نے انڈپینڈٹ کو بتایا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کو بلوچستان حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں نے ان کے صوبائی دفتر میں نظر بند رکھنے کے بعد ہفتے کی صبح واپس گوادر روانہ کر دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں بلوچستان حکومت کے نگران وزیر داخلہ زبیر جمالی اور نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی اور واٹس ایپ پر بھی رابطہ کیا مگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی موقف نہیں مل سکا ہے۔
چمن میں دھرنا کیوں ہو رہا ہے؟
بلوچستان کے ضلع چمن میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر آمدروفت کو مکمل دستاویزی بنانے اور پاسپورٹ کو لازمی قرار دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف پچھلے 22 دنوں سے دھرنا جاری ہے۔
چمن میں پاک افغان سرحد کے باب دوستی سے تین کلو میٹر دور جاری اس دھرنے کی حمایت تاجر تنظیموں سمیت تقریباً 20 سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں کر رہی ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ یکم نومبر سے سرحد پر دوسرے لوگوں کے علاوہ مقامی رہائشیوں کے لیے بھی پاسپورٹ کی شرط انہیں منظور نہیں۔
کوئٹہ میں 10 اکتوبر کو صوبائی ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس، جس میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی تھی، جس میں غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے اور افغان سرحد پر تذکرہ اور شناختی کارڈ کی بجائے پاسپورٹ کا نظام لاگو کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
چمن میں جاری اس دھرنے میں اب تک پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہان حافظ حمداللہ اور مولانا عبدالواسع شرکت کر چکے ہیں اور مولانا ہدایت الرحمٰن بھی اسی سلسلے میں کوئٹہ پہنچے تھے۔
مولانا ہدایت الرحمٰن کون ہے؟
مولانا ہدایت الرحمٰن سال 2021 ’حق دو تحریک‘ کے نام سے سامنے آئے تھے جب انہوں نے اپنے پہلے احتجاجی دھرنے میں گوادر کی عوام کے مسائل سے متعلق 19 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت بلوچستان کے سامنے رکھا تھا۔
تاہم اس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی یقین دہانی کے بعد مولانا ہدایت الرحمٰن نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’گوادر کو حق دو تحریک‘ کے مطابق حکومت بلوچستان نے اپنے کیے گئے وعدوں پرعمل درآمد نہ کیا جس پرحق دو تحریک کی جانب سے 27 اکتوبر 2022 کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک مرتبہ پھر مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کی سربراہی میں احتجاج شروع کیا تھا۔
60 روز تک جاری رہنے والے اس طویل دھرنے میں مردوں اور خواتین کی بڑی تعداد نے بھی حصہ لیا تھا۔
اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے بلوچستان کے محکمہ داخلہ نے گوادر میں دفعہ 144 نافذ کر دی تھی جس کے تحت کسی بھی مقام پر پانچ سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
25 دسمبر 2022 کو پولیس نے حق دو تحریک کے 13 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا مگر مولانا ہدایت الرحمٰن روپوش ہو گئے تھے۔
اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن نے گرفتاری دینے کا اعلان کیا اور 13 جنوری 2023 کو مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ گرفتاری دینے کے لیے گوادر کی مقامی عدالت پہنچے جہاں پولیس نے انہیں عدالت کے احاطے سے ہی گرفتار کر لیا تھا۔
گوادر پولیس نے مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کے خلاف قتل، اقدام قتل، لوگوں کو تشدد پر اکسانے اور انسداد دہشت گردی سمیت دیگر الزامات کے تحت 19 مقدمات درج کیے تھے۔
انہیں گوادر کی مقامی عدالت میں عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا رہا جہاں مختلف مقدمات میں ان کو ضمانت دی گئی مگر پولیس اہلکار کے قتل اور انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں مولانا ہدایت الرحمان کو 125 روز تک پولیس کی حراست میں رکھا گیا اور 18 مئی 2023 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔