منگل کو برطانوی وزیراعظم بارس جانسن پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے جب حکمران ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمان ڈاکٹر فلپ لی اپنی ہی جماعت کی مخالفت کرتے ہوئے لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ جا ملے۔
ٹوری باغی رہنما فلپ ہیمنڈ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ ’نو ڈیل بریگزٹ‘ کو روکنے کے لیے تیار کردہ قانون سازی کے حق میں ووٹ دیں گے اور دعوی کیا کہ ’آج ہمارے ساتھ کافی لوگ اس قطار میں شامل ہوں گے۔‘
10 ڈاؤننگ سٹریٹ (وزیراعظم ہاؤس) کے عہدیداروں نے اشارہ دیا تھا کہ اگر بورس جانسن آج کا اہم ووٹ ہار گئے تو وہ 14 اکتوبر کوعام انتخابات کا انعقاد کرائیں گے۔
لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربین کا کہنا تھا: ’لیبر پارٹی ’نو ڈیل بریگزٹ‘ کو روکنا اور عام انتخابات کروانا چاہتی ہے۔‘
یہ ڈرامائی صورتحال اس وقت سامنے آئی تھی جب لیبر، لبرل ڈیموکریٹس،حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں اور ٹوری پارٹی کے ’نو ڈیل بریگزٹ‘ کے مخالف باغی اتحاد نے ایک مسودہ قانون شائع کیا جس کے تحت وزیراعظم کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ بریگزٹ پر مذاکرات میں جنوری کے آخر تک توسیع کی درخواست کریں۔
As Johnson talked Tory MP Philip Lee stood up and walked across the floor of the Commons and sat down with the Lib Dems (top right). pic.twitter.com/cRLh6FRejT
— Ian Dunt (@IanDunt) September 3, 2019
اس سے قبل 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں اپنے دفتر کے باہر بریگزٹ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے نعروں کے شور میں بورس جانسن نے زور دیا کہ وہ قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتے۔
ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ وزیراعظم کی حمایت نہ کرنے والے کسی بھی ٹوری رکن کو نامزدگی سے محروم کر دیا جائے گا اور وہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گا۔
دارالعوام میں لیبر پارٹی کی بریگزٹ کمیٹی کے چیئرمین ہلیری بین اور سابق ٹوری وزیر السٹیئر برٹ کے نام سے جاری کیے گئے مسودہِ قانون کی شرائط کے مطابق وزیراعظم بورس جانسن صرف اس صورت بریگزٹ میں توسیع سے بچ سکیں گے کہ وہ بیلجیئم سے معاہدہ کرلیں یا 19 اکتوبر تک برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے ’نو ڈیل بریگزٹ‘ کے لیے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
وزیراعظم بورس جانس نے واضح کیا تھا کہ وہ ارکان پارلیمنٹ کے مطالبات پورے نہیں کریں گے۔انہوں نے اعلان کیا کہ ایسے’حالات نہیں‘جن کے تحت وہ بیلجیئم حکومت سے بریگزٹ کو ہیلووین (31اکتوبر ) کے بعد تک ملتوی کرنے کا کہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی حکام نے کہا کہ 14 اکتوبر کو عام انتخابات کی تاریخ اس لیے رکھی گئی تھی تاکہ جیتنے والا 17 اکتوبر کو یورپی یونین سربراہ اجلاس میں شرکت کر سکے جس کے بارے میں وزیراعظم بورس جانسن کو امید تھی کہ یورپی یونین سے اخراج کا نیا معاہدہ ہو جائے گا جس کے تحت دو ہفتے بعد میں متوازن اخراج ممکن ہو گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ برطانوی مذاکراتی ٹیم بیلجیئم سے بات چیت جاری رکھے گی اور کسی بھی انتخابی مہم کے دوران معاہدے کے بغیر بریگزٹ کی تیاریاں ہوتی رہیں گی۔
وزیراعظم بورس جانسن نے ڈاؤننگ سٹریٹ میں کابینہ کے بلا شیڈول اجلاس کے بعد اپنے بیان میں انتخابی منصوبے کا ذکر نہیں کیا تھا لیکن کہا تھا کہ معاہدے کے امکانات بڑھ رہے ہیں کیونکہ اب یورپی یونین کے رہنماؤں کو پتہ چل گیا ہے کہ برطانیہ ہیلووین کے موقعے پر بریگزٹ کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا’جو ہوگا دیکھا جائے گا۔‘
بورس جانسن نے خبردارکیا تھا کہ دارالعوام میں بریگزٹ میں مزید تاخیر کے حق میں ووٹ’برطانیہ کے مؤقف کو کمزور کر دے گا اور مزید مذاکرات بالکل ناممکن ہو جائیں گے۔‘
انہوں نے ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر ’جیریمی کوربن کی بے تکی تاخیر‘ کے خلاف ووٹ دیں۔ انہوں نے کہا: ’میں سب کو بتا دینا چاہتا ہوں۔ ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے جس کے تحت میں بیلجیئم کو بریگزٹ میں تاخیر کے لیے کہوں۔ کوئی اگر مگر نہیں۔ ہم 31 اکتوبر کو یورپی یونین چھوڑ رہے ہیں۔‘
© The Independent