پاکستان بھر میں افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کا جاری عمل رکاوٹوں اور بدانتظامی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ہر طرف مصائب و تکالیف کا سلسلہ ہے۔
مثال کے طور پر ایک نوجوان افغان کو اس کے خاندان سے الگ کر دیا گیا، جب کہ اس کی بیوی اور دو ماہ کے بچے کو کہیں اور لے جایا گیا۔ نوجوان گرنے ہی والا تھا کیونکہ کوئی اسے نہیں بتا رہا تھا کہ اس کی بیوی اور بچے کو کہاں رکھا گیا ہے۔
پولیس تشدد کے واقعات عام ہیں۔ ’ہولڈنگ سینٹرز‘ بدانتظامی، ساز و سامان سے عاری اور تشدد آمیز ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی بےدخلی میں بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ دستاویزات رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی پکڑا جا رہا ہے، ہراساں کیا جا رہا ہے اور ہولڈنگ سنٹرز میں رکھنے کے لیے ٹرکوں پر لادا جا رہا ہے، بےبس متاثرین کی تذلیل کی جا رہی ہے۔
اس سارے ذلت آمیز تماشے میں کچھ حقائق کو سہولت سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کرنا بےگھر افراد کی ذمہ داری تھی؟ نہیں۔ یہ پاکستانی حکام کا فرض تھا کہ وہ تمام پناہ گزینوں تک پہنچیں اور انہیں عارضی شناختی دستاویزات دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی رجسٹریشن کرانے میں ناکامی نظام کی ناکامی ہے، افغان مہاجرین کی نہیں۔ انہیں صرف 20 دن کا نوٹس دینا انصاف کا مذاق ہے۔ تصور کریں کہ ایک خاندان تین دہائیوں سے کسی گاؤں یا قصبے میں رہ رہا ہے اور پھر اسے 20 دنوں کے اندر سب کچھ سمیٹ کر وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی قانون کے تحت، کوئی بھی میزبان ملک کسی ایسے خاندان کو زبردستی بےدخل نہیں کر سکتا جو ظلم و ستم، عدم تحفظ یا شدید غربت یا فاقہ کشی کے خوف کی وجہ سے اپنا اصل ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا ہو۔
افغان معیشت تباہی کا شکار ہے۔ ملک کو بین الاقوامی بینکاری اور مالیاتی نظام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ امریکہ نے امریکی بینکوں میں موجود افغان حکومت کے چھ ارب ڈالر کے اثاثے جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
امریکہ کے یورپی اتحادی اپنے بینکوں میں موجود افغان حکومت کے مزید دو ارب ڈالر کے اثاثے روک کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ امریکہ واضح طور پر نظام کے خاتمے کو یقینی بنانا چاہتا ہے، لیکن یہ ایسا ہدف ہے جس کے حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
لیکن پاکستان اس فیصلے سے ایسا کیا حاصل کرنا چاہتا ہے جو آنے والی کئی دہائیوں تک پاکستان افغان تعلقات پر اثرات مرتب کرے گا؟
پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے افغان حکومت میں پاکستان کے خلاف اتنی دشمنی پیدا ہوئی ہے۔
اس معاملے پر سٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں سے جہاں زیادہ تر مہاجرین موجود ہیں۔ 15 لاکھ لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے اتنے اہم فیصلے کے فائدے اور نقصانات پر کوئی بحث نہیں ہوئی، جسے کرنے کا نگران حکومت کے پاس اختیار ہی نہیں تھا۔ پھر ایسا فیصلہ کیسے ہوا؟
افغان مہاجرین پاکستان کی معیشت پر بوجھ نہیں ہیں۔ وہ سب اپنی دیکھ بھال خود کر رہے ہیں۔ وہ کبھی ملک میں کسی منظم بدامنی میں ملوث نہیں رہے اور نہ ہی انہوں نے مقامی سیاست میں حصہ لیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں مقامی کمیونٹیز سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جنہوں نے کبھی اپنی زمینوں سے ان کی بےدخلی کا مطالبہ نہیں کیا۔
ان تمام برسوں میں مقامی لوگوں اور افغانوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی رہی ہے۔ اور اب، اس قدر اچانک بےبس افغانوں پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے، حالانکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مہاجرین میں سے کوئی بھی سرحد پر حملوں میں ملوث رہا ہو۔
یہ حملے داعش یا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے کیے جا رہے ہیں اور وہی ان کی ذمہ داری قبول کرتے آئے ہیں۔
طالبان حکومت اس ناروا سلوک اور اسلام آباد کے معاندانہ رویے کو قبول نہیں کرے گی۔ کابل اس غیر ضروری، غیر منصفانہ علیحدگی کے ساتھ مفاہمت نہیں کرے گا۔
کیا پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کرنا بےگھر افراد کی ذمہ داری تھی؟ نہیں۔ یہ پاکستانی حکام کا فرض تھا کہ وہ تمام پناہ گزینوں تک پہنچیں اور انہیں عارضی شناختی دستاویزات دیں۔
پاکستانی حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں ہمدردی، حمایت اور تعاون کے تمام جذبات کو ہوا میں پھینک دیا ہے جس کے بعد ایک نئی حرکیات نے جنم لیا ہے۔ اب ایک دیوانگی اور غلط سوچ پر مبنی فیصلے کے ذریعے نئی تاریخ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
افغان حکومت سے اس کی ٹوٹی پھوٹی معیشت اور نظام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے سخت موسمِ سرما میں پاکستان سے واپس آنے والوں کو پناہ، خوراک، پانی اور ادویات فراہم کرنے کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالے۔
ان لاکھوں غریبوں کے مصائب اور حالت زار کی یاد تادیر زندہ رہے گی۔
(رستم شاہ مہمند افغانستان اور وسط ایشیا کے امور کے ماہر ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ایک دہائی تک چیف کمشنر مہاجرین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔