آپ شادی کرنے جا رہے ہیں، آپ کے درمیان طلاق کی بات چل رہی ہے، آپ کو کسی سے محبت ہو گئی ہے یا کسی کو آپ سے محبت ہو گئی ہے۔ کسی بھی دوستانہ تعلق میں ہیں تو آپ کو بھی یہ ڈراما ایک بار غور سےدیکھ لینا چاہیے جس کا نام تو طلاقیں 101 ہے مگر اس میں بات پیار کی ہوئی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اس میں بات گھر بسانے کی ہوئی ہے، اس میں بات تعلق نبھانے کی ہوئی ہے۔
بس بات کرنے والے کا انداز بہت مختلف ہے۔
رستم کاؤس جی وکیل ہے اور ساتھ ہی وہ مصنف ایک تخلیق کار بھی ہے۔ ایک طرف وکالت جیسا سفاک کام ہے دوسری طرف لکھنے جیسا حساس شعبہ ہے۔ اس نے کبھی کوئی کیس نہیں ہارا۔ اس کی فیلڈ میں اس کا نام ہی اس کی پہچان ہے۔
اب تک وہ 99 طلاقوں کے کیس فائل کر چکا ہے، سینچری پہ جو کیس اس کے پاس آتا ہے اسے وہ خود لٹکا دیتا ہے۔ وہ اس جوڑے سے سکیھ رہا ہے اور کسی حد تک اس کا خیال ہے کہ یہ جوڑا ساتھ رہ سکتا ہے۔
شروع کی اقساط میں رستم کاؤس جی کا ایک تعارف ریڈیو سے نشر ہوتا دکھایا گیا ہے۔
’ان کے ریلشن شپ کے پروگرام ہی ان کی غیر معمولی شہرت کی وجہ ہیں جو مختلف شہروں اور ملکوں میں پیش ہوتے ہیں۔ ان کی کتاب جو چند ماہ پہلے ہی آئی ہے بیسٹ سیلر ہے۔ وہ ڈگمگاتے رشتوں کے مسیحا سمجھے جاتے ہیں۔‘
یہ خوشی ایک مصنف کے لیے کافی ہوتی ہے جو رستم کاؤس جی کے لیے بھی مسرت کا باعث ہے مگر اس کی طلسماتی ذات ابھی راز ہے۔
ایک صحافی لڑکی معاشرے میں طلاق کے بڑھتے رحجان پہ ڈاکومینٹری کرنے امریکہ سے آتی ہے تو ادارے کا مالک اسے تین شخصیات کے نام بتاتا ہے جن میں ایک نام بیریسٹر رستم کا بھی ہے۔ دوسرا رشتے کروانے والی پروفشنل خاتون مسز خان کا ہے۔ تیسرا ملک کے معروف موٹیوشنل سپیکر ثاقب علی شاہ کا ہے۔
رستم کاؤس جی کسی کو انٹرویوبھی نہیں دیتا۔ لوگوں سے الگ رہتا ہے۔ اس نے اپنی ایک الگ دنیا بسائی ہے جو بہت پروفیشنل مگر ایک خواب جیسی بھی ہے۔
ایک سائنسی لیب کے جیسا گھر اور دفتر ہے جس میں سب کچھ وکٹورین دور جیسا لگتا ہے۔ پہاڑوں میں ایک مسکن، جس میں لینڈ لائن بھی صدی پہلے جیسا ہے ویسا ہی اس کا مزاج ہے۔
وہ وکیلوں کی طرح چیختا چلاتا بھی نہیں بلکہ مفکروں کی طرح سب کو غور سے سنتا ہےاور اس میں سے نتائج بھی اخذ کرتا ہے۔
فیس اپنے مطلب کی لیتا ہے اور کام دفتر میں آنے والے کے مطلب کا کرتا ہے اور اس کا کوئی کیس ناکام نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ شہر بھر میں لوگوں کو اس سے کوئی مسئلہ سا رہتا ہے جیسے ایک کامیاب انسان سے عام انسانوں کو ہوا ہی کرتا ہے۔
طرح طرح کے جوڑے اس کے پاس آتے ہیں اور نت نئے مشاہدات ہوتے ہیں۔
ڈرامے میں جو مزاح ہمیں دکھائی دے رہا ہے وہ مزاح نہیں مزاج ہے۔ وکیل کا کردار شخصیات کو مزاج سے پہچاننے کی کوشش کرتا ہے جس میں اس کا مطالعہ و فکر دکھائی گئی ہے۔
ثاقب علی شاہ کا کردار بلاشبہ ایک معروف موٹیویشنل سپیکر کی پیروڈی ہی ہے جو دوسروں کو تو موٹیویٹ کرتا ہے مگر جب اس کے گھر کا معمہ ہوتا ہے تو رستم کاؤس جی کے پاس ہی آتا ہے۔ مسز خان مشہور و معروف رشتہ کروانے والی خاتون کےطور پہ پہچانی جاتی ہیں۔ اس شخصیت کو بھی سماج سے اٹھا کر کردار میں ڈھال دیا گیا ہے جو طلاق یافتہ لڑکیوں کے رشتے نہیں کرواتیں۔ مسز خان بھی اسی قبیل سے ہیں جن کو رستم کاؤس جی ایک آنکھ نہیں بھاتے۔
وہ رستم سے ایک تقریب کے اختتام پہ کہتی ہیں کہ تمہارے کام اور کتاب میں بہت تضاد ہے اور میں تمہیں اب عدالت میں ملوں گی۔
وہ پراعتماد اور بے خوف ہے اور بے خوف وہ ہوتا ہے جس کے پاس پانے اور کھونے کو کچھ نہ بچے۔ یہ راز ابھی کھلنا ہے کہ اس کی اپنی زندگی میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ بے خوف ہے ایسی کون سی ناکامی ہے جس کی بنیاد پہ وہ آج کامیاب ہے۔
جہاں رستم بطور مصنف اور سپیکرسامنے آتا ہے وہ ڈرامے کے فلسفی موڑ ہیں، یہیں وہ تمام مکالمے موجود ہیں جو نتائج اس نے ایک سینچری طلاقوں کے کیس کامیابی سے نمٹانے کے بعد اخذ کیے ہیں۔ اگر ڈرامے کے صرف ان حصوں کو بھی ایک ساتھ جوڑ دیا جائے تو یہ اتنے ہی کارآمد ہیں جتنی رستم کاؤس جی کی لکھی کتاب ہو گی گویا یہ ڈیجیٹل لیکچرز یا ڈیجیٹل کتاب بن جاتی ہے۔
ڈراما گرین انٹرٹینمنٹ سے نشر ہو رہا ہے۔ دو مصنفین شہزاد غیاث اورعمر اکرام نے سکرپٹ لکھا ہے جو بظاہر سادہ مگر مشکل سکرپٹ ہے۔
ایک خاتون مصنفہ بھی ہوتی تو خواتین کی طرف سے طلاق والے مسائل کی بہتر نمائندگی ہو جاتی ابھی وہی نکتہ نظر دکھائی دے رہا ہے جو مرد دیکھ سکتا ہےمگر نتائج پھر بھی قابل غور ہیں۔
ڈرامے کے پروڈیوسر آصف خان ہیں۔
زاہد احمد نے کردار کو بہت خوب نبھایا ہے، لباس، ہیئر سٹائل، منفرد دھیما، شائستہ انداز تکلم ہر اعتبار سے داد کے مستحق ہیں۔
کہانی اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے رستم کی زندگی کتاب کی طرح کھلنے والی ہے۔ یہ امریکہ سے آئی صحافی ضرور کچھ نیا کرے گی جس کو رستم کاؤس جی نے انٹرویو بھی دے دیا ہے اور دامن بھی بچا لیا ہے۔
رستم کاؤس جی کا خیال ہے کہ اللہ نے مرد کو آنکھ اور عورت کو زبان دے کر حساب برابر کر دیا ہے گویا بہت سے مسائل آنکھ اور زبان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیار کے بارے میں ان کا فلسفہ کہتا ہے کہ ’ہم جسے پیار سمجھتے ہیں وہ اصل میں ہارمونز کی لڑائی ہے۔‘
مرد عورت ایک دوسرے کو شادی کے بعد ملکیت سمجھ لیتے ہیں۔ ایک دوسرے پہ حد سے زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں۔
دونوں فریقین کے والدین مسلسل اس نئے گھر میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ ان کو اپنا تجربہ کرنے کی آزادی نہیں دیتے بلکہ ان سے اپنے مطلب کے نتائج کی تمنا و اظہار کرتے ہیں جس کی وجہ سے نئی شادی شدہ زندگی منفی طور پہ متاثر ہونے لگتی ہے۔
ایک ورکشاپ میں رستم کہتا ہے کہ ’دنیا میں طلاق کا رحجان اس لیے بڑھ رہا ہے کہ شاید انسان ایک ساتھ رہتے ہوئے اپنی خواہشات پہ ہی فوکس کرتا ہے۔ اپنی خواہشات کو اپنے ساتھی کی خواہشات پہ ترجیح دیتا ہے۔ اپنی خواہشات کو زیادہ ضروری سمجھتا ہے۔ اپنی غلطی کو غلطی اور اپنے پارٹنر کی غلطی کو گناہ سمجھتا ہے۔‘
یوں محسوس ہوتا ہےکہ اصل نتیجہ یہ نکلے گا کہ شادی جذبات نہیں، ایک سائنس ہے، طب ہے، کیمسٹری ہے۔ ہم اسے آرٹ سمجھ کر چلانا و نبھانا چاہ رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔