غزہ میں ہزاروں افراد کی اموات کا باعث بننے والی ہولناک اور خونی اسرائیلی جارحیت کے دوران ہفتوں جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد بالآخر اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی سیزفائر کا معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت پہلی بار بڑی تعداد میں قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہو گا۔
قطر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ان اہم مذاکرات میں تقریباً نصف درجن وہ ممالک بھی شامل رہے جن کے زیادہ تر شہری سات اکتوبر کو حماس کی کارروائی میں قیدی بنائے گئے تھے جب کہ امریکہ بھی اس بات چیت میں ایک فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ معاہدہ بنیادی طور پر انہی مطالبات پر ہوا جن پر ماضی میں بات ہوئی تھی یعنی اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی خواتین اور بچوں کے بدلے میں قیدی بنائے گئے 240 افراد میں سے ایک مخصوص تعداد میں خواتین، بچوں اور بیماروں کی واپسی۔
یہ معاہدہ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گذشتہ ماہ مکمل ہونے کے بہت قریب پہنچ گیا تھا، تقریباً 50 قیدیوں کے بدلے تقریباً 110 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شرط پر کیا گیا ہے۔ دیگر شرائط میں ایک عارضی جنگ بندی کی شرط بھی رکھی گئی تھی جس کی مدت تین دن کی تھی۔
لیکن آخری رکاوٹ کے قریب پہنچتے ہی یہ معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کا اصرار تھا کہ تمام قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے اور ان کے بقول ایسا ہی ہو گا ’کیوں کہ حماس اسرائیل کی (مسلسل وحشیانہ) فوجی کارروائی کے بعد دباؤ محسوس رہا ہے۔‘
اُس وقت اسرائیلی کابینہ میں اس موقف پر اتفاق نظر آیا لیکن پھر رائے منقسم ہونا شروع ہوگئی اور نتن یاہو کی کابینہ میں شدید اختلاف اور وزرا اور متاثرین کے نالاں خاندانوں کے درمیان شدید ٹکراؤ اس معاہدے کا سبب بنا۔
کابینہ اس حوالے سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، ایک دھڑے میں حکومت میں شامل وہ لوگ شامل تھے جو ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ قیدیوں کو نکالنے کے لیے معاہدہ چاہتے تھے اور دوسرے وہ جو سمجھتے تھے کہ غزہ میں جاری مسلح کارروائیوں سے حماس کا بازو مروڑ کر ایسا کیا جا سکتا ہے۔
معاہدے کو مسترد کرنے والے سیاست دانوں کی یہ دلیل بھی تھی کہ قیدیوں کی رہائی کے بدلے سیزفائز کا مطلب یہ ہو گا کہ فوجی کارروائی کی رفتار ختم ہو جائے گی اور حماس اور اس کے اتحادی دوبارہ منظم ہو کر جنگ کے لیے تازہ دم ہو سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ معاہدے کی حمایت کرنے والوں میں جنگی کابینہ کے ارکان بینی گانٹز اور گیڈی آئزنکوٹ شامل تھے۔ نیز موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا جو امریکی ایلچی اور سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ولیم برنز کے ساتھ دوحہ گئے تھے جنہوں نے قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی سے ملاقات کی تھی۔
مخالف کیمپ میں وزیر دفاع یوو گیلنٹ شامل تھے جو سیزفائر کے لیے کہیں زیادہ سخت شرائط چاہتے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کو اعلیٰ فوجی افسران کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔
اس کے بعد انتہائی دائیں بازو کے سکیورٹی کے وزیر اتمار بین گویر جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ وہ ان ایک ہزار قیدیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنہیں 2011 میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔ ان رہا ہونے والے افراد میں شامل یحییٰ سنور بعد میں غزہ میں حماس کے رہنما بن گئے جو مبینہ طور پر سات اکتوبر کے حملے کے ماسٹر مائنڈز میں سے ایک ہیں۔
بین گویر اور اس کے کٹر مذہبی ساتھیوں پر الزام ہے کہ وہ جنگ کو مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے یہودی ریاست کو وسعت دینے کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی حمایت کی ہے جو اس وقت فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہے۔
بین گویر اور ان کے اتحادی اسرائیلی قیدیوں کے خاندانوں کی مخالفت کر رہے ہیں جو اپنے پیاروں کو گھر لانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے سات اکتوبر کے حملے میں حصہ لینے والے حماس کے کارکنوں کو موت کی سزا دینے کے لیے دائیں بازو کے کچھ سخت گیر اراکین پارلیمنٹ کے مطالبات پر اعتراض کیا ہے کیوں کہ اس سے حماس کی قید میں موجود اسرائیلیوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
پیر کو ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ دائیں بازو کی جماعتوں کے ارکان کے ساتھ ملاقات کے دوران کنیسٹ میں افراتفری کے مناظر دیکھنے میں آئے جب کچھ ارکان متاثرین کے خاندانوں پر طنز کررہے تھے۔ ایک موقع پر بین گویر نے گل ڈک مین کو زبردستی گلے لگانا پڑا جن کے کزن حماس کی قید میں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد ڈک مین نے ایکس پر لکھا: ’میں نے آپ (بین گویر) سے نہیں کہا کہ مجھے گلے لگائیں لیکن آپ نے پھر بھی ایسا کیا۔ میں آپ سے یہی کہتا ہوں کہ ہمارے پیاروں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ آپ نے پھر بھی ان کو اور سب کو ایک تصویر کے لیے خطرے میں ڈال دیا۔ سب نے دیکھا ہے کہ آپ ہمارے خاندانوں کے خون کا تماشا بنا رہے ہیں۔‘
اس ایک اور عنصر ہے جس کا منظر نامے کے اگلے دن ایک کردار رہا ہے۔ لیکن اس معاملے میں نہیں۔ جب غزہ پر اسرائیلی جارحیت ختم ہو جائے گی تو کیا ہو گا؟ نتن یاہو اور ان کی حکومت کے ساتھ ساتھ ملٹری اور انٹیلی جنس کے سربراہوں کے ساتھ کیا ہو گا جن کی موجودگی میں ملک کو یوم کپور جنگ کے بعد ملکی تاریخ کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق وزیر اعظم گولڈا میئر نے 1973 میں جنگ کے دوران انٹیلی جنس کی ناکامیوں پر وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ سات اکتوبر کے واقعے کے بارے میں ایک عوامی انکوائری شروع ہونے والی ہے اور نتن یاہو، جنہوں نے خود کو اپنے ووٹرز کے سامنے ’مسٹر سکیورٹی‘ کے طور پر متعارف کرایا تھا، انتہائی کمزور ہیں۔
یتزاک رابن اور یہود باراک کی حکومتوں میں امن مذاکرات میں حصہ لینے والے ڈینیئل لیوی کا ماننا ہے کہ ’یہ یقینی ہے کہ ان (نتن یاہو) کو جنگ ختم ہونے کے بعد احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شاید یہی بات فوجی قیادت کے بارے میں بھی سچ ہے، اس لیے کہ انہوں نے (قیدیوں کی رہائی کے لیے) وہ اعتدال پسند کردار ادا نہیں ادا کیا جس کی ان سے عام طور پر توقع کی جا سکتی ہے۔‘
ان کے بقول: ’حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ یہ صرف فوجی دباؤ ہی ہے جس کی وجہ سے یہ (قیدیوں کی رہائی) معاہدہ عمل میں آیا۔ کچھ ایسی ہی بات چار ہفتے پہلے کی جا رہی تھی۔ لیکن اگر بیانیہ یہ ہے کہ انہیں اسے قابل عمل بنانے کی ضرورت تھی تو یہ ٹھیک ہے۔ انہوں نے شاید (قیدیوں کی) رہائی کو ترجیح نہ دی ہو لیکن اگر انہیں ایسا کرنا بھی پڑا تو یہ وہ کہانی ہے جسے وہ آگے بڑھائیں گے۔‘
© The Independent