انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے بدھ کو جاری اپنی رپورٹ میں کہا کہ چین میں شی جن پنگ کی حکومت ملک کی مذہبی اقلیتوں کو ’سائنسائز‘ (چینی رنگ میں ڈھالنے) کے لیے شمالی وسطیٰ صوبوں میں مساجد کو مسمار کر رہی ہے۔
عالمی تنظیم نے سیٹلائٹ امیجز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چینی حکام نے ننگسیا اور گانسو صوبوں میں مسلمانوں کے لیے اسلام پر عمل کو محدود کرنے کی حکومتی کوششوں کے سلسلے میں مساجد کو مسمار کیا، انہیں بند کیا، ان کے اجازت نامے منسوخ کیے اور ان کو غیر مذہبی استعمال کے لیے تبدیل کر دیا۔
’دا موسک کانسولیڈیشن‘ پالیسی کا حوالہ پہلی بار اپریل 2018 کی چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی دستاویز میں اسلام کو ’زیادہ چینی رنگ‘ میں ڈھالنے کے لیے کثیر الجہتی قومی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلم برادریوں کو بڑے پیمانے پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
China: Mosques Shuttered, Razed, Altered in Muslim Areas https://t.co/AUeZQyiyoF
— Human Rights Watch (@hrw) November 21, 2023
چین کے مسلم اکثریتی شمال مغربی علاقے سنکیانگ کے بعد ننگسیا اور گانسو صوبوں میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد آباد ہے۔
صدر شی جن پنگ کی قیادت والی چینی حکومت پر الزام ہے کہ وہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران اویغور اور ہوئی نسل کے مسلمانوں کے خلاف مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر بدسلوکی اور غیر قانونی حراستوں کے ذریعے مقدمات چلا رہی ہے۔
بیجنگ نے معمول کے مطابق ان ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے الزامات کی تردید کی اور اسے ’صدی کا جھوٹ‘ قرار دیا۔ چین مبینہ طور پر غیر ملکی مذہبی آثار کے ’ثبوت کو ہٹانے‘ کے لیے گنبد اور مینار گرا کر ہزاروں مساجد میں تعمیراتی تبدیلیاں کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق دستاویز میں کہا گیا کہ ’تعمیرات سے زیادہ (مساجد کو) مسمار کیا جانا چاہیے۔‘
لیاوقیاؤ نامی چینی گاؤں میں ہوئی نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی آبادی یہاں کی کل آبادی کا 55 فیصد ہے، اور 2013 میں اسلامی فن تعمیر اور گول گنبد والی چھ مساجد موجود تھیں۔
تاہم سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ جنوری اور اگست 2020 کے درمیان تین مساجد سے ان مسلم فن تعمیر کو ہٹا دیا گیا اور مساجد کے مرکزی ہال مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔
ایچ آر ڈبلیو نے بدھ کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’اس بات کا امکان نہیں کہ یہ عمارتیں اب مساجد کے طور پر کام جاری رکھیں گی۔‘
جنوبی ننگسیا صوبے کے چوانکو گاؤں میں لیوجیاگو مسجد پہلی بار 1988 میں تعمیر کی گئی تھی اور پھر 2016 میں ایک بڑے مرکزی ہال کے ساتھ اس کی دوبارہ تعمیر کی گئی جس میں دو مینار اور ایک گنبد شامل تھا۔
سیٹلائٹ کی حالیہ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ اس مسجد کے مینار اور گنبد کو 2019 اور 2021 کے دوران کسی وقت ہٹا دیا گیا تھا۔
مسجد کے وضو خانے کا اندرونی حصے، جو روزانہ کی پانچ نمازوں کے لیے ضروری عمل ہے، کو بھی منہدم کر دیا گیا۔
ایک ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گروپ کو بتایا کہ مسجد کو 2022 میں نماز کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ژونگوئی شہر میں حکام نے 2019 میں 214 مساجد میں تبدیلیاں کیں، 58 مساجد کو ’منظم‘ کیا اور 37 غیر رجسٹرڈ مذہبی مقامات پر پابندی لگا دی۔
ننگسیا صوبے کی ایک سرکاری مسجد ڈائرکٹری کے مطابق اس سے قبل اس شہر میں 2009 میں 852 مساجد موجود تھیں۔
چنگ ٹونگشیا شہر کی انتظامیہ نے 2020 میں دعویٰ کیا تھا کہ یہاں کی مجموعی طور پر چھ مساجد میں ’بڑے پیمانے پر علاقائی مذہبی سرگرمیوں کی تعداد میں سال بہ سال بالترتیب 30.6 فیصد اور 62.5 فیصد تک کی کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کے گروپ کے مطابق 2009 میں اس شہر میں 69 مساجد تھیں۔
گانسو صوبے میں اسلام کو چینی رنگ میں ڈھالنے کے حکومتی آرڈر کے بعد مساجد کو یکساں طور پر نشانہ بنایا گیا۔
یہ حکم نامہ مذہب کو کردار اور شکل میں مزید چینی بنانے کی کوشش ہے۔
شہر میں 10 مساجد کو کم اور اکٹھا کیا گیا اور سال 2020 میں 31 دیگر مساجد میں ’لنکسیا ہوئی آٹونومس پریفیکچر‘ کے تحت اسلامی تعمیراتی طرز تعمیر میں تبدیلیاں کی گئیں۔
گوانگے کاؤنٹی، جسے ’منی مکہ‘ کہا جاتا ہے، میں بہت زیادہ مسلمان آباد ہیں، جہاں چینی حکام نے 2020 میں 12 مساجد کی رجسٹریشن منسوخ کر دی، پانچ مساجد کو بند کر دیا اور مزید پانچ کو ’بہتر اور منعظم‘ کیا۔
ایچ آر ڈبلیو چائنا کی قائم مقام ڈائریکٹر مایا وانگ نے کہا کہ چینی حکومت مساجد کو 'منظم' نہیں کر رہی جیسا کہ وہ دعویٰ کرتی ہے بلکہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت سی مساجد کو بند کر رہی ہے۔
ان کے بقول: ’چینی حکومت کی طرف سے مساجد کی بندش، مسماری اور دوبارہ تعمیر کرنا چین میں اسلامی رواج پر پابندی لگانے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہے۔‘
آسٹریلوی سٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق شی انتظامیہ نے سنکیانگ میں دو تہائی مساجد کو نقصان پہنچایا یا انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ثقافتی انقلاب کے بعد یہ مساجد کی سب سے کم تعداد ہے جب یہاں تین ہزار سے بھی کم مساجد باقی بچ گئی ہیں۔‘
© The Independent