امریکی قانون سازوں نے جمعرات کو اویغور اقلیت کے ساتھ چین کے سلوک کی مذمت کے طور پر بیجنگ پر نئی تجارتی پابندیاں عائد کیے جانے کی منظوری دے دی ہے، جس میں دنیا کی سب سے بڑی ڈرون ساز چینی کمپنی پر نئی پابندیاں بھی شامل ہیں۔
امریکہ حالیہ دنوں میں چین پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایک روز قبل چین کی درد کش ادویات بنانے والی کمپنیوں کو امریکہ کو نشے کے بحران میں مبتلا کرنے پر نشانہ بنایا تھا جبکہ اس سے قبل آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ مل کر امریکہ بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا بھی اعلان کرچکا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی سینیٹ نے جمعرات کو متفقہ طور پر ووٹ دے کر ایک بل کو کانگریس کی حتمی منظوری دے دی، جس کے تحت جبری مشقت کے پھیلاؤ کے خدشات پر چین کے شمال مغربی خطے سنکیانگ سے تقریباً تمام درآمدات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ان اقدامات سے امریکہ اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
اس قانون کے پیچھے کام کرنے والے سینیٹر مارکو روبیو نے کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ یہ ہولناک نسل کشی کی خطرناک شرح کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ قانون پہلے ہی ایوان نمائندگان سے منظور ہو چکا ہے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اب اس پر (صدر) بائیڈن دستخط کریں گے۔‘
جبری مزدوری کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت چین کے خطے سنکیانگ سے اُس وقت تک تمام اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے جب تک کہ کمپنیاں اس بات کا قابل تصدیق ثبوت پیش نہ کریں کہ پیداوار میں اویغور مسلمانوں کی غلامی یا جبری مشقت شامل نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق محکمہ خزانہ کی پابندیوں کا نشانہ بننے والی کمپنیوں میں ایس زیڈ ڈی جے آئی ٹیکنالوجی بھی شامل ہے، جو فلم سازی اور فضائی فوٹو گرافی میں استعمال ہونے والے کنزیومر ڈرونز بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔
اے پی کے مطابق بلیک لسٹ میں شامل دیگر کمپنیوں میں امیج ریکگنیشن سافٹ ویئر فرم میگوئی، سپر کمپیوٹر مینوفیکچرر ڈاننگ انفارمیشن انڈسٹری، چہرے کی شناخت کے ماہر کلاؤڈ واک ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی گروپ ژیامین میا پیکو، مصنوعی ذہانت کی کمپنی یتو ٹیکنالوجی اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ فرمز لیون ٹیکنالوجی اور نیٹ پوسا ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔
محکمہ خزانہ کے مطابق پابندیوں کی زد میں آنے والی کمپنی ژیامین میا پیکو انفارمیشن نے لوگوں کے فون پر فائلوں کا سراغ لگانے کے لیے موبائل ایپلی کیشن تیار کی ہے جبکہ کلاؤڈ واک ٹیکنالوجی کمپنی نے اویغوروں اور تبتیوں کے چہروں کو پہچاننے کے لیے سافٹ ویئر تیار کیا تھا اور اس کے بعد اسے زمبابوے میں استعمال کیا گیا، تاکہ ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ یہ آٹھ ادارے چین میں نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان کی نگرانی اور سراغ میں مدد کرتے ہیں جن میں سنکیانگ میں مسلم اویغور کی اکثریت ہے۔
اے پی کے مطابق امریکہ کے محکمہ تجارت نے چین کی اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنسز اور اس کے 11 تحقیقی اداروں کو نشانہ بناتے ہوئے نئے جرمانے کا اعلان بھی کیا ہے، جو چینی فوج کی مدد کے لیے بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال پر کام کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنکیانگ کپاس کا ایک بڑا ذریعہ ہے، ایک اندازے کے مطابق ہر سال امریکہ میں درآمد کیے جانے والے ملبوسات کے 20 فیصد میں سے کچھ حصہ اس علاقے سے بھی آتا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ خام کپاس، دستانے، ٹماٹر کی مصنوعات، سلیکون، ماہی گیری اور شمسی توانائی میں استعمال ہونے والے متعدد اجزا مبینہ طور پر اویغور مسلمانوں سے لی گئی جبری مشقت کی مدد سے تیار کیے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کے ماہرین، عینی شاہدین اور امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زائد اویغور اور دیگر ترک بولنے والے مسلمانوں کو زبردستی چین کی ’ہان‘ اکثریت میں ضم کرنے کی کوشش میں کیمپوں میں قید کیا گیا ہے۔
اے پی کے مطابق امریکی انٹیلی جنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ چین نے پورے سنکیانگ میں ایک ہائی ٹیک نگرانی کا نظام قائم کر رکھا ہے، جو بائیو میٹرک چہرے کی شناخت کا استعمال کرتا ہے اور اس نے اویغوروں کو دبانے کی منظم کوشش کے حصے کے طور پر 12 سے 65 سال کی عمر کے تمام رہائشیوں سے ڈی این اے نمونے اکٹھے کیے ہیں۔
دوسری جانب چین ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان مقامات کو پیشہ ورانہ تربیتی مراکز قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بہت سے مغربی ممالک کی طرح وہ بھی مہلک حملوں کے بعد ’بنیاد پرست اسلام‘ کے پھیلاؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔