کراچی کے ایک نجی سکول میں ایک ہفتہ قبل گیارہ سالہ بچے کے ڈوب جانے کی خبر سامنے آئی تو بہت سے والدین میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ فیس بک پر موجود ایک گروپ کی بانی عائشہ ناصر نے اپنے سٹیٹس میں لکھا کہ انہیں اس بات کا شدید صدمہ پہنچا ہے اور وہ خوفزدہ ہوگئی ہیں۔
سکول کے سوئمنگ پول میں ایک وقت میں 30 سے 40 بچے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے بچوں کے لیے ڈر محسوس ہونے لگا ہے۔ عائشہ ناصر کے تین بچے صوبائی سطح کے تیراک ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ جب ان کے بچے کلب یا اکیڈمی میں تیراکی کی کلاس لینے جاتے ہیں تو وہ ہمیشہ ان کے ساتھ جاتی ہیں تاکہ وہ ان پر نظر رکھ سکیں۔ مگر وہ اپنے سب سے چھوٹے تین برس کے بیٹے کو سکول میں تیراکی کی کلاسز دلوانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہیں۔
اسی لیے انہوں نے کراچی والے واقعے کے بعد اپنے بیٹے کے سکول والوں کو ایک خط لکھا کہ وہ انہیں اجازت دیں کہ جب ان کا بچہ تیراکی کی کلاس لے تو وہ خود وہاں موجود ہوں۔ جواب میں سکول والوں نے انہیں ذاتی طور پر ان کے بچے کی ایک ویڈیو بنا کر بھیجی جس میں وہ استاد کے ساتھ سکول کے سوئمنگ پول میں تیراکی کر رہا ہے۔
عروج جو ایک ڈاکٹر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے چار سالہ بیٹے کو کبھی پول میں اکیلا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جم خانہ کلب میں تیراکی سکھانے والے استاد کبھی خود پول میں نہیں اترتےاس لیے وہ یا ان کے شوہر خود اپنے بچے کے ساتھ تیراکی کے لیے پول میں جاتے ہیں، جب کہ سکول میں انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ تیراکی سکھانے والے استاد بچوں کے ساتھ پول کے اندر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں تھوڑی تسلی رہتی ہے۔
مریم حیدر چائلڈ سائیکولوجسٹ ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ بھی خود بچوں کے ساتھ سوئمنگ پول میں جاتی ہیں مگر ان کی رائے میں سکولوں کے بچوں کے لیے تیراکی کے دوران لائف جیکٹس کا استعمال ہونا چاہیے۔ نیز پول کی گہرائی کی حد بندی بہت ضروری ہے جس کا بچوں کو علم ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں لائف گارڈز کا تیراکی کے دوران پول کے پاس ہر وقت موجود ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شفق خواجہ کے مطابق سوئمنگ پول کی صفائی بہت اہمیت رکھتی ہے اور تیراکی سکھانے والے استاد کی مہارت بھی۔ شفق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیادہ تر سکولوں میں انہوں نے یہ ہی دیکھا ہے کہ تیراکی کی کلاس کے دوران بچوں کے ساتھ ایک استاد ہوتا ہے اور سکول میں کام کرنے والی آیا یا باجی وہاں موجود ہوتی ہیں جو ان کے خیال میں کافی نہیں، وہ کہتی ہیں کہ لائف گارڈ کا وہاں موجود ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آخر تیراکی کو کیسے محفوظ بنایا جائے کیا صرف تیراکی سکھانے والے استاد یا سکول کی آیا بچوں کی نگرانی کے لیے کافی ہے؟
اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے ورلڈ سوئمنگ چیمپئن کرن خان سے بات کی ۔ کرن خود اپنی بھی سوئمنگ اکیڈمی چلاتی ہیں اور 3 سے 13 برس کے بچوں کو تیراکی سکھاتی ہیں۔ کرن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو بچوں کے لیے بنائے گئے سوئمنگ پول کی گہرائی چیک کرنا بہت ضروری ہے جو دو فٹ سے چار فٹ کے درمیان ہونی چاہئیے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ تیراکی سیکھنی ہو تو گہرے پانی میں سیکھو لیکن میں تیراک ہونے کے باوجود اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ اگر میں 9 فٹ گہرے پانی میں تیراکی کر رہی ہوں تو میں کتنی دیر اس پانی میں تیر سکتی ہوں؟ مجھے آخر کار سانس لینے اور آرام کرنے کے لیے اتنی جگہ چاہیے کہ میں پانی میں کھڑی ہو سکوں اور میرا سر پانی سے باہر ہو۔ گہرے پانی کے اندر میں ایسا نہیں کر سکتی اور میں جلد تھک جائوں گی۔
دوسرا پاکستان کے اکثر سکولوں، کلبز یا سوئمنگ سکولوں میں پول کی گہرائی کی حد بندی نہیں کی گئی کہیں گہرائی بالکل کم ہو گی کہیں تھوڑی زیادہ اور کہیں بہت زیادہ اور بچوں کو یہ بات نہیں معلوم ہوتی۔ اگر استاد ساتھ ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر بچہ اکیلا پول میں ہو تو وہ اس کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ کرن کے خیال میں ان سب باتوں سے بھی اہم بات کسی بھی سوئمنگ پول پر لائف گارڈ کا موجود ہونا ہے۔
کرن کہتی ہیں کہ میں ایک تیراک ہوں اور بچوں کو تیراکی سکھاتی ہوں اور یہی میرا کام ہے میں بچوں کی جان نہیں بچا سکتی کیونکہ میں نے لائف گارڈ کی تربیت نہیں لی ہوئی۔ ہمارے ہاں بیشتر تیراکی سکھانے والے ادارے یا سکولوں میں لائف گارڈ موجود نہیں ہوتا۔ فرض کریں بچے کو پانی میں غوطہ لگ گیا ہے پانی اس کے اندر چلا گیا ہے یا پانی ناک کے ذریعے بچہ کے سر میں چلا گیا ہے تواس بچے کو فوری کیا طبی امداد دینی ہے یہ ایک تربیت یافتہ لائف گارڈ ہی بتا سکتا ہے۔ بچے کو سی پی آر دینا ہے یا نہیں؟ اس کے سر سے پانی کیسے نکالنا ہے؟ وہ بے ہوش ہے تو اسے ہوش میں کیسے لانا ہے؟ یہ تیراکی کا استاد نہیں کر سکتا یہ لائف گارڈ کر سکتا ہے۔
تیراکی کے دوران اگر والدین بھی موجود ہیں تو وہ بھی ایسی صورتحال میں کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ بچے کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں سب سے پہلے تو ہر وہ جگہ جہاں تیراکی سکھائی جاتی ہے وہاں یہ لازم قرار دینا چاہیے کہ ایک تربیت یافتہ لائسنس رکھنے والا لائف گارڈ موجود ہو جو تیراکی کے دوران صرف بچوں پر نظر رکھے اور ضرورت پڑنے پر ان کی جان بچا سکے۔
ان کے خیال میں کراچی کے سکول میں ڈوبنے والے بچے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کرن کے مطابق وہ بچہ سوئمنگ جانتا تھا اور ایوارڈز بھی لے چکا تھا۔ ممکن ہے کہ اسے پانی میں غوطہ لگا ہو اور پانی ناک کے ذریعے اس کے اندر چلا گیا۔ اگر وہاں لائف گارڈ موجود ہوتا تو وہ فورا اسے طبی مدد دے سکتا تھا اور شاید اس بچے کی جان بچ جاتی۔ دوسری جانب کرن کہتی ہیں کہ بچوں کا سوئمنگ پول دو سے چار فٹ تک گہرا ہونا چاہئیے اس سے زیادہ نہیں تاکہ بچے کو فورا پانی سے باہر نکلنے کا موقع مل سکے اور وہ پانی کے نیچے زمین پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوسکے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے لاہور کے ایک نجی سکول میں موجود تیراکی کی سہولیات جاننے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے سکول میں دو سوئمنگ پول ہیں ایک چھوٹا ہے اور دوسرا بڑا ہے۔ تیراکی کے دوران 20 سے 30 بچے دونوں پولز میں ہوتے ہیں جن کے لیے صرف ایک تیراک استاد موجود ہوتا ہے۔ جب کہ بچوں کی استانیاں اور آیا بھی وہیں موجود ہوتی ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان پاس بچوں کی تیراکی کے دوران لائف گارڈ کی سہولت موجود نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی لائف گارڈ رکھنے کا سوچا ہے۔
پول کی گہرائی کے مطابق انہوں نے بتایا کہ سکول کا پول ڈھائی سے پانچ فٹ گہرا ہے جب کہ بچے لائف جیکٹ بھی استعمال نہیں کرتے۔ ہاں اگر کوئی کرنا چاہے تو کر لے، وہ انہیں اجازت دے دیتے ہیں۔ سکول کی انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر تیراکی کی کلاس کے دوران والدین کو آنے کی اجازت دی جائے تو سکول میں رش بڑھ جائے گا اور ویسے بھی تمام والدین کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہفتے میں ایک کلاس کے لیے کام کاج چھوڑ کر سکول آئیں۔ پھر بھی اگر کبھی والدین سکول انتظامیہ کو درخواست دیں کہ وہ بچے کے ساتھ اس کی سوئمنگ کلاس میں آنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں اجازت دے سکتے ہیں۔
رانیم راحیل سلیمان ایک والدہ ہیں ان کے خیال میں سکول میں ہونے والی سوئمنگ کلاسز کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ چالیس منٹ کی کلاس میں آدھا وقت تو بچوں کو سوئمنگ سوٹ پہنانے میں گزر جاتا ہے، باقی 20 منٹ میں کون سا بچہ تیراکی سیکھ سکتا ہے۔ ان کے خیال میں سکولوں کے پاس فی دس بچہ ایک تیراکی کا استاد اور ایک لائف گارڈ ہونا چاہئیے، تب ہی تیراکی کو محوظ بنایا جاسکتا ہے۔