1992 کے امریکی صدارتی مقابلے کے دوران بل کلنٹن کی انتخابی ٹیم نے ’یہ معیشت ہے، بےوقوف!‘ کا جملہ تخلیق کیا تاکہ اس بات پر زور دیا جا سکے کہ کسی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے میں رائے دہندگان کے لیے معیشت اہم مسئلہ ہے۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ ایک جمہوری نظام کے اندر ہوا تھا، جہاں سیاسی مخالفین کی طرف سے مختلف دیگر امور سمیت متبادل معاشی ترجیحات کا بھی بھرپور مقابلہ کیا گیا۔
حال ہی میں پاکستانی سیاست کی کشمکش میں یہاں کی معیشت بھی مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ معیشت کی بحالی کو بہت سے ماہرین اور پالیسی ساز قومی سلامتی سمیت ملک کی تمام خرابیوں کے علاج کے طور پر دیکھتے ہیں۔
طاقت کے روایتی مراکز، جو سیاسی حیثیت کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں اور ساتھ ہی ٹیکنوکریٹ حکومت کے حامی، ’معیشت کا چارٹر،‘ ’قومی سلامتی کی پالیسی،‘ ’خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)‘ اور ’جیو اکنامکس‘ جیسے ڈھانچوں کو اپنا کر معاشی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
انہیں تبدیلی لانے کے لیے عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بظاہر افراتفری والے جمہوری عمل کے متبادل کے طور پر فروغ دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد اہم معاشی فیصلوں کو مبینہ طور پر ’گندے‘ سیاسی مباحثے اور عوامی جانچ پڑتال کے دائرے سے باہر رکھنا ہے۔
معیشت بلاشبہ اہم ہے، لیکن نہ صرف یہ کسی قوم کی صحت کا واحد تعین کنندہ نہیں، بلکہ یہ مختلف جہتوں پر بھی منحصر ہے جو معاشی معیارات سے بالاتر ہو کر معاشرے کی زندگی میں حصہ ڈالتے ہیں۔
معاشی اشاریوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش، خاص طور پر جب اسے سیاسی گفتگو سے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان عوامل کے پیچیدہ تجزیے کو مبہم بنا دیتی ہے، جو اجتماعی طور پر لوگوں کی فلاح و بہبود اور قوموں کی تقدیر بناتے ہیں۔
سب سے پہلے، سماجی ہم آہنگی اور سب کی شمولیت ایک قوم کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک معاشرے کی طاقت نہ صرف اس کی معاشی خوشحالی بلکہ اس میں بھی ہے کہ وہ اپنے شہریوں میں کمیونٹی اور وابستگی کے احساس کو کس طرح پروان چڑھاتا ہے۔
کسی قوم کی فلاح و بہبود کا اندازہ سماجی اعتماد کی سطح، باہمی تعلقات کے معیار اور اس کے اداروں کی شمولیت سے لگایا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف معیشت پر توجہ مرکوز کرنے کا نتیجہ ایک منقسم معاشرے کی صورت میں نکل سکتا ہے، جہاں عدم مساوات بڑھتی اور سماجی تعلقات کمزور ہوتے ہیں۔
مزید برآں، اظہار رائے کی آزادی، اجتماع اور تنقیدی فکر کی پرورش نہ صرف سماجی اور سیاسی ترقی کے اہم اجزا ہیں بلکہ ایک متحرک معیشت کا لازمی جزو بھی ہیں۔
خیالات کا آزادانہ تبادلہ متنوع برادریوں کو پروان چڑھاتا، تخلیقی صلاحیتوں اور جدت طرازی کے لیے موزوں ماحول کو فروغ دیتا ہے۔
اس تناظر میں، جوزف شمپیٹر کا ’تخلیقی تباہی‘ کا تصور خاص طور پر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ جمہوری عمل سیاسی میدان سے باہر تک پھیلا ہوا ہے، جس سے مروجہ خیالات اور طریقوں کے مقابلے کی اجازت ملتی ہے۔
وہ مضبوط تجارتی منصوبوں اور قائم شدہ اداروں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
یہ دائمی چیلنج صنعتوں اور وسیع تر معیشت کے اندر موجود اداروں کو مسلسل کارکردگی بڑھانے پر مجبور کرتا ہے۔ جدت طرازی اور ترقی موجودہ ڈھانچوں کے خاتمے اور نئے اور زیادہ متعلقہ ڈھانچوں کے ابھرنے سے ہوتی ہے جو معاشرے کی معاصر ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کرتے ہیں۔
ایک جمہوری نظام میں، لامتناہی مسابقت نئے خیالات اور ڈھانچے کے ابھرنے کے لیے محرک کے طور پر کام کرتی ہے اور اس کے لحاظ سے وسائل کو ان کے سب سے موثر استعمال کے لیے مختص کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
اس متحرک ماحول سے نہ صرف متنوع امنگوں کے لیے راہیں کھلتی ہیں بلکہ بہترین قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔
پالیسی سازوں کو ملک کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ ترقی کی پیمائش کے لیے معاشی اعداد و شمار پر حد سے زیادہ انحصار کتنا دھوکہ ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان پائیدار جامع ترقی کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی استحکام کا فقدان ہے، جسے صرف ایک صحت مند جمہوریت ہی یقینی بنا سکتی ہے۔
پالیسی سازوں کو ملک کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ ترقی کی پیمائش کے لیے معاشی اعدادوشمار پر حد سے زیادہ انحصار کتنا دھوکہ ثابت ہو سکتا ہے۔
1960 کی دہائی میں ترقی کی دہائی ختم ہو گئی کیونکہ آمریت کا دور سیاسی امنگوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔ نمائندہ حکومت کے لیے عوام کی خواہش کو دبانے کی کوشش ملک کے مشرقی نصف حصے میں عسکریت پسندی میں اضافے کا سبب بنی۔ بالآخر اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ یہ نہ صرف پاکستان کی تاریخ کے سب سے تکلیف دہ باب میں سے ایک تھا بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ معیشت کے نام نہاد سنہری دور کی ترقی کے فوائد اگر مضبوط جمہوری بنیادوں پر نہ ہوں تو آسانی سے الٹ سکتے ہیں۔
آج پاکستان جنوبی ایشیا کے ’مردِ بیمار‘ کے طور پر کھڑا ہے، جو حکمرانی اور فلاح و بہبود کے تقریباً ہر معاملے میں اپنے علاقائی ساتھیوں سے پیچھے ہے۔
حکومتی اداروں میں عوامی مینڈیٹ کا فقدان ہے اور اس وجہ سے ضروری اصلاحات کرنے کا اعتماد نہیں ہے۔ پالیسی سازوں کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹ چکی ہے جو ملک کو متاثر کرتے ہیں۔
یہ ایک غلط خیال ہے کہ الٹ کام کر کے معیشت پر توجہ دے کر متعدد بحران حل کیے جا سکتے ہیں۔
جیسا کہ ماہر معاشیات ثاقب شیرانی نے حال ہی میں کہا تھا: ’نہیں، یہ صرف معیشت ہی نہیں ہے، احمق! پاکستان کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی طور پر معاشی اشاریوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے گورننس ماڈل کو آئینی جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور ہر پاکستانی کی نمائندگی کو یقینی بنانا ہو گا۔ پھر اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ ہم معیشت ٹھیک کر لیں گے۔
(بشکریہ عرب نیوز)
- جاوید حسن انویسٹمنٹ بینکر ہیں جو لندن، ہانگ کانگ اور کراچی میں کام کر چکے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔