مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے پاکستانی معیشت پر اثرات

مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگر کشیدگی پھیلی تو ترقی پزیر ملک زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔

تین جولائی، 2023 کو کراچی میں سٹاک بروکر پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی/ آصف حسن)

بلال اسلم درآمدات، برآمدات اور مینوفکچرنگ کا کاروبار کرتے ہیں اور پاکستانی اور عالمی معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی شدت اختیار کر رہی ہے، اسرائیل نے میزائل حملے نہ روکنے کا اعلان کیا ہے اور حزب اللہ نے سیز فائر نہ ہونے کی صورت میں باقاعدہ جنگ میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔

’امریکہ اسرائیل کی مالی اور عسکری مدد کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کا اس ساری صورت حال میں کردار ایک تماشائی سے زیادہ دکھائی نہیں دے رہا۔

’اس صورت حال نے ایک طرف دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے تو دوسری طرف عالمی معاشی عدم استحکام میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک شاید اس بحران سے نمٹ لیں لیکن ترقی پذیر ممالک شاید اس مالی عدم استحکام کا بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے۔‘

انھوں نے کہا ’اگر پاکستان کی بات کی جائے تو مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑ سکتا ہے، جس سے ہزاروں فیکٹریوں کی طرح میرا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ کاروبار کرنے کا خرچ پہلے ہی بہت زیادہ ہو چکا ہے، بین الاقومی ادارے کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی روپے میں بہتری عارضی ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر دوبارہ گر رہی ہے، شرح سود میں کمی نہیں ہو رہی۔

بلال کے مطابق عالمی سطح پر مہنگائی اور پاکستان میں بڑھتا ہوا ڈالر میرے کاروبار کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتے ہیں، کشیدگی پھیلنے کی صورت میں خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، بجلی مہنگی ہو گی اور تنخواہوں میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا جبکہ دوسری طرف قوت خرید کم ہونے سے صارفین مطلوبہ قیمت ادا نہیں کر سکیں گے، ایسے حالات میں میرے لیے کاروبار جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔

سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات امریکہ اور یورپ سے جڑی ہیں، یورپ میں توانائی کا بحران پہلے ہی بڑھ چکا ہے اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو آرڈرز نہیں مل رہے۔ 

’رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی برآمدات میں آٹھ فی صد کمی دیکھی گئی جب کہ جولائی اور اگست میں پاکستان صرف ساڑھے چار ارب ڈالرز کی برآمدات کر پایا جو گذشتہ سال کے انہی دو ماہ کے دوران پانچ ارب ڈالر تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھی تو یورپ میں حالات مزید خراب ہوں گے اور پاکستان کی برآمدات مزید کم ہو سکتی ہیں۔

’موجودہ مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ترسیلات زر چار ارب 10 کروڑ ڈالرز رہیں جو 21 فیصد کم ہیں۔‘

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر کشیدگی جاری رہتی ہے تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی حالات خراب ہوں گے اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں مزید کمی آ سکتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور زمینی سرحد سے تجارت کا بڑا ذریعہ بھی، اگر ایران لڑائی میں براہ راست شامل ہو جاتا ہے تو پاکستان کے لیے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔

’ان حالات میں پاکستان کیا پوزیشن لے گا یہ اہم ہے۔ پاکستان میں امن کو خطرہ لاحق ہونے کے ساتھ تجارتی نقصان بھی بڑھ جائے گا۔‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا صاحب نے بتایا کہ پاکستانی معیشت تیل کی قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے، پاکستان کا سب سے بڑا امپورٹ بل ہی پیٹرولیم مصنوعات کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر لڑائی کا دائرہ وسیع ہونے سے پیٹرولیم مصنوعات کی نقل و حرکت میں بڑے پیمانے پر رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو تیل کی قیمت 55 فیصد سے 70 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے جو تقریباً 130 سے لے کر 150 ڈالر فی بیرل ہو سکتی ہیں۔

’اس حساب سے پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تقریباً 550 روپے فی لیٹر تک جا سکتی ہیں، تجارتی خسارہ بڑھ سکتا ہے، شرح نمو میں مزید کمی ہو سکتی ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے مزید بتایا کہ خلیجی ممالک کی پاکستان میں سرمایہ کاری اس کشیدگی سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن دیگر کئی عوامل ہیں جن سے خلیجی ممالک کی پاکستان میں سرمایہ کاری مشکل ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ  سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں ماحول سازگار ہونا ضروری ہے، سرمایہ کاری نہ ہونے کو حماس اسرائیل کشیدگی سے جوڑنا مناسب نہیں۔

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ ابھی تک حماس اسرائیل کیشدگی محدود ہے اور تیل پیدا کرنے والے ممالک اس سے اثر انداز نہیں ہو رہے۔

’پاکستان میں ڈالر کی قیمت پہلے ہی زیادہ ہے، بلوم برگ کے مطابق یہ 250 کے قریب ہونی چاہیے۔ اگر مستقبل میں تیل کی مد میں زیادہ ڈالرز کی ادائیگی کرنا پڑ بھی جائے ( جس کے امکانات کم ہیں) تو سٹیٹ بینک اسے مینج کر سکتا ہے۔

’ماضی میں سٹیٹ بینک نے ڈالرز کی ادائیگی کے حوالے سے ایک حد طے کر دی تھی جس کا فائدہ ہوا۔ اصل مسئلہ افواہوں کا ہے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر بینکس یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ ڈالر مزید مہنگا ہوگا، جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر ریٹ اوپر جا رہا ہے۔

’امپورٹر کو کہا جا رہا ہے کہ ڈالرز خریدیں جبکہ ایکسپورٹرز کو کہا جا رہا ہے کہ ابھی ڈالرز روک لیں اس معاملے پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت