اب سیاسی لطیفے، گندے الزامات، عشق معشوقی کی خفیہ داستانیں، سیاست دانوں کی خلوتوں کے قصے سننے کے لیے انتخابات کے موسم کا انتظار نہیں کرنا ہوتا، سوشل میڈیا کے طفیل یہ سنگین تھیئٹر سدا بہار ہو گیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں مکافات عمل کی ایک فلم ہے جو مسلسل ریوائنڈ پہ چلتی ہے۔ جو آج ایک جماعت کے ساتھ ہوتا ہے کل وہی دوسری جماعت بھگتی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
اب تک کی ریلیز ویڈیوز، آڈیوز، تصاویر اور انٹرویوز سے لگتا ہے کہ پاکستانی عوام کی نمائندگی کے لیے خود کو پیش کرنے والے خواتین و حضرات کی اکثریت بےراہ روی کا شکار ہے۔ یہ حسیناؤں کے دام میں آ جاتے ہیں، یہ اپنی شادی کے علاوہ بھی تعلقات بناتے ہیں، یہ ممنوع مشروب پیتے ہیں، نشہ آور ادویات لیتے ہیں، یہ مال دولت کے بھوکے ہیں اور ان میں یا ان کے خاندان میں شرافت و اقدار کا وجود نہیں۔
ظہیر احمد بابر کی تصنیف ’پارلیمنٹ سے بازار حسن تک‘ خوب پڑھی گئی، کتاب کی ٹیگ لائن تھی: ’پاکستانی سیاست دانوں کے شرمناک سکینڈلز کی ہوش ربا تفصیلات۔‘ ایک اور مصنف شفقت رسول نے بھی بالکل اسی موضوع کے ساتھ کتاب لکھی، جس کا خاصہ پرویز مشرف خصوصی ایڈیشن ہونا تھا۔
اس کتاب میں سیاست دانوں کے سکینڈلز سے بات ایک درجہ آگے بڑھا کر پیش کی گئی۔ یہ دو مثالیں ہیں لیکن اس قسم کی اور بھی درجنوں کتابیں مارکیٹ میں مل جائیں گی۔
ان کتابوں میں پیش کردہ واقعات/الزامات کس حد تک سچے ہیں، ان کی فیکٹ چیکنگ کسی نے نہیں کی۔ عوام کو تو بس چٹخارہ چاہیے، جو اس میں سے چیدہ چیدہ اقتباسات ایک دوسرے سے بیان کرتے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہتے ہیں۔
آلِ شریف سے آلِ بھٹو تک، عمران خان سے زرداری تک، پنجاب کی وڈیرہ شاہی کے بڑے بڑے ناموں تک کون ہے جو ان الزامات کی زد میں نہیں آیا۔
دلچسپی رکھنے والے وہ افراد جو ایسی کتابیں پڑھنے کی عظیم سعادت سے محروم رہ گئے، وہ پوری کتاب پڑھنے کا بوجھ اٹھانے سے بہتر ہے کہ صرف کتاب کی فہرست پہ ایک نظر ڈالیں اور یہ سمجھ لیں کہ پاکستانی سیاست میں یہ وہ ہیں جو آپ اور ہم جیسے انسان ہیں۔ غلطیوں اور نفسانی خواہشوں کا پتلا، باقی جن کی راتوں کی ہوش ربا داستانیں نہیں چھپا کرتیں وہ سارے فرشتے ہیں یا خلائی مخلوق۔
آج جیل میں بیٹھے عمران خان کی شخصیت کی خاکہ نگاری اس انداز سے کی جا رہی ہے جیسے کوئی انکشافات تھے جو آج سے پہلے لوگوں کے علم میں نہ تھے۔ نواز شریف کو جب مشرف نے حکومت سے چلتا کیا تب وزیراعظم ہاؤس کے کمروں سے جن ادویات کی رپورٹنگ کی گئی وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے سکینڈلز، چوری چھپے کی شادیوں کی خبریں بھی چسکے بازوں کی خوراک بنی۔ شہید بےنظیر بھٹو کی ذات سے کتنے ہی جھوٹے قصے منسوب کیے گئے، جب وہ نوجوان پنکی ہوا کرتی تھیں۔ ان کی والدہ نصرت بھٹو کا پورا خاندان خبروں کی زینت بنا۔ مریم نواز کو ان کے شوہر کا نام لے کر بدنام کیا گیا۔ بدنام تو یہاں سیتا بھی ہوئی ہے، فہرست تو بڑی طویل ہے۔
اب جو پاکستانی سیاست کو واقعتاً صرف بالغوں کے لیے بنانے کی تازہ واردات ہو رہی ہے اس میں ایک نئی ترکیب بھی آزمائی گئی ہے۔ اب صرف سیاست دان نہیں ان کے کارکنوں کی کردار کشی بھی کی جاتی ہے۔ مثلاً مخالفین کے سیاسی جلسوں میں آنے والی خواتین کارکنوں کو طرح طرح کے نام دینا، پارٹی ترانوں پہ جھومنے والیوں کو بدکردار قرار دینا، یہ تازہ حربہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا سیاست دانوں کی ذاتی زندگی بالخصوص ان کی خلوتیں بھی پاکستانی سیاست و جمہوریت میں اخلاقیات کا مسئلہ شمار ہوں گی؟
اس کا ایک زاویہ تو یہ ہے کہ اخلاقیات کا اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کرنا ہمارا عمومی رویہ ہے، یہ صرف پاکستانی سیاست کا مسئلہ نہیں، گلی کی پھاپھے کٹنی سے لے کر اسٹیبلشمنٹ تک اپنے اردگرد کے افراد کی اخلاقی کمزوریاں گننا، ’رنگے ہاتھوں‘ پکڑنا، دینیات اور اخلاقیات کے بھاشن دینا یہ تو عمومی مسئلہ ہے۔ فرق صرف سیاق و سباق کا ہے۔ گلی کی پھاپے کٹنی کا سکینڈل لیک کرنے کا مقصد صرف مطلوبہ فرد کی بدنامی تک محدود رکھنا ہے، لیکن یہ کام ادارے کریں تو مقصد سیاسی انجینیئرنگ ہوتا ہے۔
آئین پاکستان کہتا رہا کہ کوئی بھی شخص رکنِ پارلیمان بننے کا اہل نہیں ہو گا اگر وہ نیک چلن نہ ہو۔ لیک ہونے والی آڈیوز، ویڈیوز، کہانیوں، کتابوں اور آن ریکارڈ خبروں کی رو سے سیاست دانوں کی اکثریت کے لچھن اور چال چلن نیک نہیں لگتے؟
اخلاقیات ایک سماجی قدر ہے، جو مذہب، سماجی معاہدے یا ہمارے ثقافتی اصولوں سے تو دیکھی جا سکتی ہے، لیکن نجی زندگی میں سیاست دانوں کی اخلاقیات انہیں حکمران بنانے یا نہ بنانے کا اولین پیمانہ نہیں۔
سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمے (اسحاق خان خاکوانی بنام نواز شریف و دیگر) کے فیصلے میں لکھا تھا کہ اب ہمارے سامنے گناہ گار انسان ہیں جن کے نیک اور پارسا ہونے کا فیصلہ کرنا عملی طور آسان نہیں، اس لیے آئین کو عملی ہونا چاہیے تاکہ اس کا نفاذ ہو سکے۔
وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس جسٹس کھوسہ نے یہ الفاظ لکھے، بعد میں خود ان کے بطور منصف کردار کو بھی الزامات نے داغ دار کیا۔
اخلاقی سوال اس وقت زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جب ملک میں سیاسی قوتیں اور پارلیمان خود مختار نہیں بلکہ مقتدر حلقوں کی طاقت کے زیر ہو۔ ایسے میں اخلاقیات کا سوال سیاست دانوں کے خلاف بطور آلہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔
سیاست دانوں کو اگر اپنی پگڑیاں بچانی ہیں تو اس گندے کھیل کے خلاف اپنا واضح موقف اپنانا چاہیے ورنہ سیاست ہے، حمام ہے اور سب ننگے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔