وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار نے بائیڈن انتظامیہ کو اس خطرناک انکشاف سے پیدا ہونے والے ممکنہ سیاسی نتائج سے بچانے کی کوشش کی کہ اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو کامیابی کے ساتھ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کا پتہ لگایا لیکن ناممکن قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے این بی سی کے پروگرام میٹ دی پریس کو بتایا کہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ انہیں اس حملے کی تفصیلات فراہم کرنے والی وہ دستاویزات موصول نہیں ہوئیں یا ان کے بارے میں علم نہیں تھا جن کے بارے میں نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ ایک سال سے اسرائیل کی حکومت پاس تھیں۔
جان کربی نے کہا، ’انٹیلیجنس کمیونٹی نے وضاحت کی ہے کہ ان کے پاس اس دستاویز تک رسائی نہیں ہے۔ اس وقت اس بات کے کوئی اشارے نہیں ملے کہ انہیں اس دستاویز تک پہلے سے رسائی حاصل تھی۔‘
این بی سی کی میزبان کرسٹین ویلکر نے پوچھا ’کیا انہیں ہونی چاہیے تھی؟ یہ دیکھتے ہوئے کہ امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس حکام کس حد تک قریبی تعاون کرتے ہیں اور ان سے انٹیلی جنس کو مربوط کرنے کی توقع ہوتی ہے؟‘
انہوں نے جواب دیا:’انٹیلیجنس ایک موزائیک ہے اور کبھی کبھی آپ کو پتہ ہوتا ہے آپ چیزوں کو ایک ساتھ جوڑ سکتے اور ایک بہت اچھی تصویر بنا سکتے ہیں۔ کبھی آپ جانتے ہیں کہ پہیلی کے کچھ ٹکڑے غائب ہیں۔‘ جیسا کہ میں نے کہا، ہماری اپنی انٹیلیجنس کمیونٹی نے کہا کہ انہوں نے اس پر غور کیا ہے۔ ان کے پاس اس وقت کوئی اشارہ نہیں ہے کہ انہیں اس دستاویز کے بارے میں کوئی پیشگی انتباہ یا اس کے بارے میں کوئی علم تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت کو اس بات کی تحقیقات کرنی چاہیں کہ وہ سات اکتوبر کو حماس کے حملے سے کیسے متاثر ہوئی، انہوں نے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے اس دعوے سے اتفاق کیا کہ اس طرح کے جائزے کا انتظار جنگ کے بعد تک کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی فوج کی کوششوں کے نتیجے میں انتہائی حیران کن بمباری اور زمینی حملہ کیا گیا جن میں 14 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں زیادہ عام شہری ہیں۔ مرنے والوں میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔
اندرون ملک بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیلی کی بھرپورحمایت صدر کی تعریف اور تنقید دونوں کا سبب بنی ہوئی ہے۔
قدامت پسندوں اور پرانے ڈیموکریٹس نے مشرق وسطیٰ میں ایک قریبی امریکی اتحادی کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر بائیڈن کی تعریف کی ہے جبکہ نوجوان نسل میں صدر کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بائیڈن دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کو خوش کر رہے ہیں اور اس کے بجائے انہیں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ عام عوام کی مزید اموات کو روکا جا سکے۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اپنے ووٹنگ اتحاد میں اہم آبادی کے درمیان جوش و جذبہ اور خیرسگالی کھو رہے ہیں، جس کی ایک اہم وجہ ان کا اس جنگ سے نمٹنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے حکام کم ہوتی ہوئی حمایت روکنے کی بار بار کوشش (جس کا تھوڑا سا بھی فائدہ نہیں ہوا) اس یقین دہانی کے ساتھ کر چکے ہیں کہ اسرائیلی حکومت اپنی فوج سے غیر ضروری شہری اموات سے بچنے کے لیے زور دے رہی ہے۔
© The Independent