جج نے اپنا فیصلہ نرمی سے سنایا۔ ایسی نرمی اس عدالت میں کم ہی دیکھی جاتی ہے جہاں دہشت گردوں کو باقاعدہ سزائے موت ملتی ہے۔ ملزمان جو کہ چار عورتیں تھیں اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور بغداد کے مرکزی عدالت کے ایک کمرے کے وسط میں کٹہرے میں کھڑی تھیں۔
ان میں سب سے بڑی عورت اپنے بازو میں سو رہی نوزائیدہ بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ حالات کے نزاکت سے بےخبر ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کی عبایا کو کھینچ رہا تھا۔
ان تمام عورتوں کا تعلق کرغزستان سے تھا اور وہ اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم کی رکن ہونے کی وجہ سے اس وقت عراق کے مختلف علاقوں سے مختلف اوقات میں حراست میں لی گئی تھیں۔ اس وقت دولتِ اسلامیہ کی نام نہاد خلافت ختم ہو گئی تھی۔ یکے بعد دیگر ان کے مقدمات کچھ منٹوں کے لیے جاری رہے اور اب وہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کا انتظار کر رہی تھیں۔ جج نے کہا: ‘ان جرائم کی سزا موت ہے، لیکن عدالت رحم دل ہے۔’ اپنے الفاظ کے ترجمے کے لیے کچھ توقف کے بعد، انہوں نے فیصلہ سنایا کہ ان میں سے ہر ایک خاتون جیل میں 15 سال گزارے گی۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ’قانون میں یہ کم سے کم سزا ہے۔‘
دنیا کی اکثریت کے خیال میں دولت اسلامیہ کی خلافت جنگجو مردوں اور غیر ملکی انتہا پسندوں پر مشتمل ایک شدت پسند ریاست ہے جو اسلامی یوٹوپیا یا تخیل کے لیے دوسروں کو مارنے یا خود مر جانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن یہ آدھی کہانی ہے۔ دولت اسلامیہ کے وعدوں اور پراپیگینڈا سے متاثر ہونے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں عورتیں دوسرے ممالک سے آئیں۔ ان میں سے کئی اپنے شوہروں کے ساتھ آئیں جبکہ کئی شوہروں کی تلاش میں یہاں پہنچیں۔ انہیں ’دولت اسلامیہ کی بیویوں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب جب کہ خلافت تباہ کر دی گئی ہے، ان غیرملکی عورتوں کو شام اور عراق میں کیمپوں اور جیلوں میں رکھا جا رہا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے۔ جن ممالک سے وہ آئی ہیں وہ ان کی واپسی نہیں چاہتے۔ برطانیہ برطانوی شہری شمیم بیگم جیسی خواتین کی واپسی کو یہ کہہ کر روک رہا ہے کہ ایسی عورتیں سکیورٹی کے لیے اتنی ہی خطرناک ہیں جتنے کہ اس تنظیم کے مرد۔ یورپ کے دوسرے ملک بھی زیادہ تر ایسا ہی کر رہے ہیں۔
اس گروپ کے دہشت گردی کے دور کے بعد ان عورتوں کے متعلق کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ دولت اسلامیہ کے جرائم میں ان عورتوں کا کیا کردار تھا؟ کیا تمام عورتیں بخوشی وہاں گئی تھیں یا انہوں اپنا فرض سمجھ کر بس اپنے شوہروں کی پیروی کی؟ کیا وہ اپنے آپ کو خلافت کے شعوری رکن سمجھتی ہیں؟
دنیا کی اکثریت ان سوالات سے کترا رہی ہے، عراق ان جرائم کے مقدمات کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن جلد انصاف کے شوق میں بہت کچھ گنوایا جا رہا ہے۔ کرغستان سے آئی ان چار عورتوں کے مقدمات سے ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسی راستے پر چلنے والی دیگر ہزاروں عورتوں کے ساتھ آگے کیا ہونے والا ہے۔
کمرہ عدالت کی سرد روشنی میں ہر عورت ایک منفرد کہانی بیان کرتی ہے کہ کس طرح وہ خلافت پہنچیں اور ان کا وہاں وقت کیسے گزرا۔ ان کے دفاعی دلائل میں دھونس دھمکی اور دھوکے سے لے کر جہالت اور لاتعلقی تک سب کچھ شامل ہوتا ہے۔
*****
جب سزا سنائی گئی تو زیبو علی نامی عورت نے اپنی نوزائیدہ بچی کو گود میں لیے ہوئے کہا، ’براہ کرم مجھے اپنے بچوں سے جدا مت کیجیے۔‘ وہ فیصلے پر حیران دکھائی نہیں دے رہی تھیں لیکن پھر بھی اپنے مختصر مقدمے کے دوران اپنی معصومیت پر اصرار کرتی رہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے شوہر نے انہیں ڈرایا دھمکایا تھا اور یہ کہ وہ مظلوم ہیں۔
36 سالہ زیبو علی کا کرغستان سے بغداد کی جیل تک کا سفر اس وقت شروع ہوا جب وہ 2014 میں ترکی پہنچیں اور ایک ترک سے شادی کی۔ وہ ڈیڑھ سال تک اکٹھے رہنے کے بعد جب ان کے شوہر نے بتایا کہ وہ دارالحکومت انقرہ جانا چاہتے ہیں تاکہ زیبو کے سکونتی کاغذات کی تجدید کروا سکیں۔ لیکن وہ ان کو کہیں اور لے گیا۔
‘ہم شام کی سرحد پہنچ گئے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ کیا ہونے والا ہے تو میں نے ان کو بتایا کہ میرے بغیر چلے جائیں لیکن انہوں نے میرے بچوں کو ساتھ لے جانے کی دھمکی دی۔
زیبو علی نے کہا کہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ شام یا خلافت چلی جائیں۔ وہ کچھ عرصہ شام میں رہے اور پھر عراق چلے گئے۔ ان کا شوہر فضائی حملے میں مارا گیا اور انہوں نے اس بار ایک ازبک کے ساتھ شادی کی۔
زیبو علی جیسی کہانیاں جج کے لیے معمول کی ہیں۔ بےشمار عورتیں ان کی عدالت سے گزر چکی ہیں جو اسی قسم کی کہانیاں بتاتی تھیں۔ کمرہ عدالت کا ایک طریقہ ہے جس کی پیروی وہ تمام کرتے ہیں۔
جج نے پوچھا: ‘کیا آپ کا شوہر دولت اسلامیہ کے ساتھ تھے؟‘
اس نے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا، ’وہ بیمار تھے۔‘
‘کیا آپ نے دولت اسلامیہ سے رقم وصول کی تھی؟‘
اس نے جواب دیا: ’نہیں۔‘
’پھر آپ کیسے زندہ رہیں؟‘
’میں روٹیاں پکاتی تھی اور دوکان پر فروخت کرتی تھی اور اس طرح کچھ پیسے کما لیتی تھی۔‘
الہول کیمپ میں دولت اسلامیہ کی قید خواتین (اے ایف پی)
جج ایک چبوترے پر دو دیگر ججوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے ملزم کے خلاف ثبوتوں کی ایک فائل پڑی تھی۔ عراق کا عدالتی نظام مغرب کے عدالتی نظام سے مختلف ہے۔ اس سے پہلے کہ مقدمہ شروع کیا جائے کسی بھی کیس کو پہلے تفتیشی عدالت سے گزرنا پڑتا ہے جہاں مشتبہ فرد کے خلاف ثبوتوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ الزامات کے جواب دینے کے لیے ملزم کو بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔
دولت اسلامیہ کے خلاف زیادہ تر مقدموں کا انحصار مشتبہ افراد کے اعتراف پر ہوتا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق یہ عمل اذیت رسانی اور بدسلوکی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور غیرمصدقہ سزاوں کا باعث بنتا ہے۔ ان عورتوں کے معملے میں واقعاتی شواہد پر ہوتا ہے کہ وہ کہاں گرفتار ہوئیں اور کن سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ جج کے چند سوالات کے بعد عدالت کے ایک طرف بیٹھا استغاثہ افسر فیصلہ کرتا ہے کہ آیا سزا دینے کے لیے شواہد کافی ہیں۔ زیبو علی کے مقدمے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ثبوت کافی ہیں۔
زیبو کے وکیل کو مقدمے کو سننے سے چند لمحے پہلے مقرر کیا گیا تھا۔ انہیں موقع دیا گیا کہ ملزم کا مختصر دفاع کرے۔ فائل سے پڑھتے ہوئے وکیل نے کہا: ’یہ دولت اسلامیہ پر یقین نہیں رکھتی۔ براہ کرم اس پر توجہ دیجیے کہ اس کو زبردستی یہاں لایا گیا۔ اس کے شوہر نے طلاق کی دھمکی دی تھی۔‘
*****
باقی عورتیں دالان میں اپنے بچوں کے ہمراہ اپنی باری کی منتظر تھیں۔ یہ تپتی گرمی کا دن تھا اور برآمدے عدالت کے ایئرکنڈیشنر کی پہنچ سے دور ہیں۔ جب زیبو علی چلی گئیں تو نیلے رنگ کی عبایا میں ملائکہ عبدالحمین سر جھکائے اندر داخل ہوئیں۔ 44 سال کی عمر میں وہ چار عورتوں میں سب سے بڑی ہے۔ اس کو موصل میں اپنے شوہر کے ساتھ اس وقت حراست میں لیا گیا جب اس شہر کو دولت اسلامیہ سے بازیاب کروایا گیا۔ وہ بھی اپنے ایک ازبک شوہر کے ساتھ ترکی میں رہتی تھیں۔ وہ بھی 2015 میں شام داخل ہوئے اور رقہ میں دو دن ٹھہرے اور بعد میں عراق کے ایک گاوں تلعفر میں رہنے لگے۔
جج نے ان کو بتایا کہ آپ کے شوہر دولت اسلامیہ کے مشتبہ جنگجو ہیں۔
اس نے جواب دیا: ’میرا شوہر دوکاندار تھا۔‘
جج نے پوچھا: ’کیا آپ کا شوہر جنگ کے علاقے میں بطور دوکاندار آیا تھا؟‘ اس نے مزید پوچھا: ’کیا آپ نے دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی یا آپ دولت اسلامیہ پر یقین رکھتی ہیں؟‘
’نہیں میں دولت اسلامیہ کی حامی نہیں۔‘
’آپ کو وہ مکان کس نے دیا تھا جس میں آپ رہتے تھے؟‘
اس نے کہا: ’وہ خالی مکان تھے اور ہم نے لے لیے۔‘
اپنے سامنے ایک فائل کو پڑھتے ہوئے جج نے نوٹ کیا کہ وہ گاؤں جہاں وہ رہتی تھیں وہاں دولت اسلامیہ تلعفر میں اپنے جنگجو تعینات کرتی تھی۔
انہوں نے جواب دیا: ’ہم واپس جانا چاہتے تھے، لیکن ہم نہیں جا سکے۔‘
استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ حالات و واقعات کی شہادت ان کو مجرم قرار دینے کے لیے کافی ہیں: ’وہ شام اور عراق اس وقت آئیں جب وہ جانتی تھی کہ یہاں دولت اسلامیہ ہے۔‘
ان کے وکیل نے بحث کی کہ وہ ایک معصوم خاتون ہیں جو ترکی میں غربت سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
’ان کی مالی مشکلات تھیں۔ جب انھوں نے جنگ دیکھی تو انھوں نے نکلنا چاہا، لیکن نکل نہیں سکیں۔‘
انہوں نے دفاع کرتے ہوئے کہا: ’اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے لیے کام کرتی تھیں۔ اگر ہم فرض کریں کہ ان کا شوہر دولت اسلامیہ کے لیے کام کرتا تھا، تو پھر اس کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔‘
٭٭٭٭٭٭
ڈیلا اکرام کمال الدین کا مقدمہ ان چار مقدموں میں سب سے مختصر تھا۔ جب انہیں موصل میں کرد پیش مرگہ نے گرفتار کیا تو ان کے پاس کوئی دستاویزات نہیں تھیں۔ عدالت کے پاس اس کی عمر قطعی طور پر معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اور وہ خود بھی نہیں جانتی تھیں۔ ایک طبی معائنہ کار نے اندازہ لگایا کہ وہ 18 یا 19 برس کی ہیں جس کا مطلب تھا کہ جب اس پر دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا تو وہ قانونی طور پر نابالغ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ عراق آئیں، جہاں وہ ایک ترک شخص کے ساتھ بیاہی گئیں۔
جج نے دوبارہ اس کے شوہر کے بارے میں سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔ انھوں نے پوچھا، ’وہ کیا کام کرتا تھا؟ کیا وہ دولت اسلامیہ کے ساتھ تھا؟‘
’میں نہیں جانتی وہ کیا کام کرتا تھا۔‘
’آپ کا خاندان پیسے کمانے کے لیے کیا کرتا تھا؟‘
’میرے والد روز بازار جایا کرتے تھے۔ میں گھر میں رہتی تھی۔ میں دولت اسلامیہ کی رکن نہیں ہوں۔‘
استغاثہ کے وکیل ان کے خلاف کیس کا خلاصہ بیان کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے: ’وہ موصل آئیں حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ یہاں ایک دہشت گرد تنظیم قابض ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔‘
٭٭٭٭٭٭
35 سالہ فاطمہ معروف نے کہا کہ انہیں دھوکے سے شام لے جایا گیا۔ وہ اپنے ازبک شوہر کے ساتھ ترکی میں رہ رہی تھیں جب ایک دن وہ گاڑی میں بیٹھے اور ڈرائیونگ شروع کی۔ انہوں نے بتایا: ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں شام میں داخل ہو گئی ہوں۔ میں گاڑی کے اندر بیٹھی رہی۔‘
وہ عراق میں موصل منتقل ہونے سے قبل تین ماہ تک شام میں رہیں۔ انہوں نے کہا: ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا شوہر کیا کام کرتا ہے۔ وہ صبح نکلتا تھا اور رات کو واپس آتا تھا۔‘
جج نے سوال کیا: ’کیا تم نے دولت اسلامیہ سے پیسے وصول کئے ہیں؟‘
‘میرے شوہر نے پیسے وصول کئے ہیں لیکن میں نے نہیں۔’
‘تم عراق کیوں آئی جب یہاں جنگ ہو رہی ہے؟’
‘میرے شوہر نے مجھے یہاں آنے کو کہا تھا۔’
‘کیا تم دولت اسلامیہ میں شامل ہوگئی؟’
‘نہیں میں دولت اسلامیہ میں شامل نہیں ہوئی۔ میں بےگناہ ہوں۔’
استغاثہ نے انہیں مجرم قرار دلوانے کی سفارش کی۔ ان کا وکیل کھڑا ہوا اور اسی طرح دفاع کیا جیسا پچھلی تین خواتین کا کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا: ’وہ ایک بےیارومددگار خاتون ہے جس نے صرف اپنے شوہر کی پیروی کی۔ اس بات کے کافی شواہد موجود نہیں ہیں کہ وہ دولت اسلامیہ میں شامل ہوئی تھی۔‘
٭٭٭
یہ چار خواتین کا مقدمہ تھا، اور ابھی تک ان کے خلاف تقریباً تمام شواہد کا تعلق ان مردوں سے تھا جن سے ان کی شادیاں ہوئی تھیں۔ عدالت کے مطابق یہ خواتین دنیا کے ظالم ترین دہشت گرد گروپوں میں سے ایک کی رکن تھیں جو اپنی مرضی سے اس میں شامل ہوئی تھیں، اور بالآخر انصاف کا سامنا کر رہی تھیں۔ لیکن وہ کن جرائم کے جواب دے رہی تھیں؟
یہ پہلی غیرملکی خواتین نہیں ہیں جن پر عراق میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے، اور یہ آخری بھی نہیں ہوں گی۔ عراقی عدالتیں پہلے بھی ترکی، روس، فرانس، جرمنی، آذربائیجان، تاجکستان اور ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو کی درجنوں خواتین کو سزائیں دے چکی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ملک میں 500 سے زائد غیرملکی خواتین اور بچے قید ہیں، اور وہ سب ایسے عمل سے گزریں گے۔
عدالتوں کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ کیسے جرم بالکل درست نوعیت کے ساتھ ثابت کریں۔ عراقی حکومت ابتداء میں ہی سمجھ گئی تھی کہ وہ زیرحراست دولت اسلامیہ کے ہزاروں ملزمان کو جرائم سے منسلک نہیں کرسکتی، اور اسی لیے اس نے ہر اس شخص کو سزا دینے کے لیے دہشت گردی کے ایک مبہم قانون کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جس کی دولت اسلامیہ کے ساتھ کوئی وابستگی ہو۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک سینیئر عراقی محقق بلقیس ولی کے مطابق عراقی عدالتی نظام کی واضح کمزوریوں کے علاوہ، جو مرد و خواتین پر یکساں لاگو ہوتا ہے، اس طریقہ کار کا نتیجہ یہ ہے کہ دولت اسلامیہ کے ارکان کی بیویوں کی دہشت گرد گروپ کےجرائم میں اصل کردار ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔
انھوں نے کہا: ’الزامات بہت مبہم ہیں، اور چونکہ کوئی مخصوص جرم کو ثابت نہیں کرتا ہے اس لیے استغاثہ کو متاثرین کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دولت اسلامیہ کے متاثرین کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’عراقی حکومت اپنی خواہش کے مطابق نتائج نکالنے کو ترجیح دیتی ہے ـــ وہ احتساب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ـــ جتنی جلد ممکن ہوسکے مقدمات مکمل کرتی ہے۔‘
احتساب کی یہ کمی دونوں قسم کے معاملات میں ہے۔ دولت اسلامیہ کی تمام غیرملکی خواتین کے لیے ایک ہی طریقہ کار اپنانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی کئی خواتین جن پر ان کے شوہروں نے خلافت کا سفر کرنے کے لیے حقیقت میں دباو ڈالا یا انھیں مجبور کیا، انھیں وہی سزا مل رہی ہے جو اپنی رضامندی سے جانے والی خواتین کو ملتی ہے۔
ولی نے کہا ’عراق میں عدالتیں فیصلہ کر چکی ہیں کہ وہ غیرملکی خواتین کے ان دعووں کو مکمل طور پر نطرانداز کریں کہ وہ جبراً یا اپنی مرضی کے بغیر گئی تھیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دولت اسلامیہ جبری طریقے استعمال کرتی تھی اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث تھی۔‘
ولی نے کہا کہ انھوں نے ایک بار عراقی عدالتوں میں ایک کیس دیکھا جس میں ایک ترک خاتون نے دعوی کیا کہ اس کے علیحدہ ہوجانے والے شوہر نے آ کر ان کا بچہ لیا اور اسے دھمکی دی کہ جب تک وہ اس کے ساتھ شام نہیں آتی وہ کبھی بھی اسے اس بچے کو دیکھنے نہیں دے گا۔ انھوں نے کہا ’جو کچھ اس نے بتایا جج نے مان لیا، اور اسے سزائے موت کی بجائے عمر قید کی سزا دے دی۔ اس طرح اس نے جبر ہونے کو تسلیم کر لیا لیکن پھر بھی اسے عمر قید کی سزا دی۔‘
ایسا دولت اسلامیہ کے جنگجووں کی عراقی بیویوں کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ انتہائی مخصوص حالات کے علاوہ، عراق کا عدالتی نظام پہلے ہی خلافت میں رہنے والی دولت اسلامیہ جنگجووں کی بیویوں کی بےگناہی کا گمان کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ وہ دولت اسلامیہ میں شمولیت کے لیے ان کی مرضی ہونے کا اس طرح گمان نہیں کرتا جس طرح غیرملکی خواتین کے لیے کرتا ہے کیونکہ انھوں نے اس شمولیت کے لیے ہزاروں میل کا سفر نہیں کیا ہوتا۔ خلافت خود ان کے پاس آئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭
خلافت یکدم ختم نہیں ہوئی، جیسا کہ اس کے پراپیگینڈے میں وعدہ کیا گیا تھا، بلکہ یہ بتدریج ختم ہوئی۔ برطانیہ کے رقبے کے برابر علاقے پر حکومت کرنے کے بعد اس نے خود کو مشرقی شام کے ایک چھوٹے سے کونے تک محدود پایا۔ ہزاروں جنگجو باغوز کے چھوٹے سے گاوں میں ٹھنس گئے۔ ان کے ساتھ دسیوں ہزار خواتین اور بچے بھی تھے جوگروپ کی پسپائی کے بعد ان کے پیچھے آئے۔ اس سال کے اوائل میں، جب علاقہ مزید محدود ہوتا گیا، ان خواتین اور بچوں نے یہاں سے نکلنا شروع کر دیا۔
علاقے سے نکلنے والے پہلے لوگ واضح طور پر فرار ہونے کے سب سے زیادہ خواہش مند تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ خلافت چھوڑنے کے قابل نہیں تھے، انھیں دولت اسلامیہ کے ساتھ پسپا ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ وہ کئی ماہ تک محاصرے میں رہنے کے بعد تھکے ماندہ اور اور لاغر ہو کر پہنچے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، مردوں نے بھی نکلنا شروع کر دیا۔ مبینہ جنگجو فرار ہونے کے لیے بھیس بدل کر عام شہریوں میں شامل ہو رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ باغوز سے لوگوں کے نکلنے میں مزید شدت آئی ہے اور بعد ازاں وہ چلے گئے۔ کٹر جنگجو آخر تک وہاں رہے۔ علاقے سے نکلنے والی خواتین اب مزید یہ تردید نہیں کر رہی تھیں کہ وہ دولت اسلامیہ کی رکن ہیں، بلکہ انھوں نے اپنی وفاداری کا دوبارہ اعلان کیا اور دولت اسلامیہ کے نعرے بلند کئے۔ وہ ان کی خروج کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر چلا رہی تھیں۔
سب خواتین اور بچوں کو مزید شمال میں کیمپوں میں بھیج دیا گیا جنھیں سیرئین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) چلا رہی تھیں، جو زیادہ تر کرد میلشیاء پر مشتمل اور دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔ ان کیمپوں میں سب سے بڑے کیمپ کی، جس کا نام الہول ہے، آبادی 70000سے زائد ہے ــــ جن میں زیادہ تر شام اور عراق کی خواتین اور بچے ہیں۔ تقریباً 11000 غیرملکی خواتین اور بچوں کو بھی ان کیمپوں میں رکھا گیا ہے ، جن میں اکثریت خلافت میں شامل ہونے کے لیے دنیا بھر سے آئے دولت اسلامیہ جنگجووں کی بیویاں اور رشتہ دار ہیں۔
شمیمہ بیگم ان کیمپوں میں سے ایک میں رہائش پذیر اندازا 19 برطانوی خواتین اور تقریباً 30 بچوں میں سے ایک ہیں۔ وہ کئی ہزار یورپی خواتین اور بچوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔
عراق میں قید خواتین کی طرح، شام میں قیدی مقدمات کا سامنا نہیں کر رہے۔ اطلاعات کے مطابق یہاں انھیں مقدمہ چلانے ـــ اور ممکنہ طور پر سزائے موت ـــ دینے کے لیے عراق بھیجنے پر کچھ غور ہو رہا ہے لیکن فی الوقت وہ اگر مگر کی کیفیت میں ہیں۔ ایس ڈی ایف کئی بار متنبہ کر چکی ہے کہ اس کے پاس قیدیوں کی اتنی بڑی تعداد کو غیرمعینہ مدت کے لیے رکھنے کی اہلیت نہیں ہے۔ وہ بین الاقوامی عدالت بنائے بغیر دولت اسلامیہ کے غیرملکی ملزمان پر مقدمے نہیں چلا سکتے۔ اس اثناء، امریکی فوجی رہنما یہ انتباہ کر رہے ہیں کہ کیمپوں میں یہ خواتین جو ابھی تک دولت اسلامیہ کے ساتھ وفادار ہیں، جہادیوں کی ایک نئی نسل پیدا کر رہی ہیں۔
الہول کیمپ کی حالت انتہائی خراب ہے۔ گذشتہ ماہ، ہیومن رائٹس واچ کے غیرملکی خواتین و بچوں کے لیے مخصوص علاقے کے دورے کے دوران، گروپ کے محقیقن نے دیکھا کہ ’بیت الخلا گند سے بھرا پڑا ہے، بوسیدہ خیموں میں گندی نالیاں بہہ رہی ہیں اور لوگ ایسی ٹینکیوں سے پانی پی رہے ہیں جن میں کیڑے ہیں۔‘
ادارے نے مزید کہا ہے ’چھوٹے بچے جن کی جلد سرخ دانوں سے بھری تھی، جسم کمزور اور لاغر ہو چکے تھے اور پیٹ پھولے ہوئے تھے، جھلسا دینے والی دھوپ میں بدبودار کوڑے کی ڈھیروں کو چھان رہے تھے یا خیموں کے فرشوں پر پڑے ہوئے تھے جن کے جسم گندگی سے اٹے تھے اور ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ بچے شدید اسہال اور فلو جیسی انفیکشنز سے مر رہے ہیں۔‘
دولت اسلامیہ کی بیویوں کی ایک بڑی تعداد اب دعوی کرتی ہے کہ ان کا خلافت کے دور میں دولت اسلامیہ کے ساتھ ہلکا سا واسطہ تھا۔ بیگم شمیم دعوی کرتی ہیں کہ وہ وہاں اپنے وقت میں ’صرف ایک گھریلو خاتون‘ تھیں، باوجود یہ کہ اس نے گروپ کے ساتھ علی الاعلان وفاداری کا اعلان کیا تھا۔
تاہم برطانوی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کی خواتین، نام نہاد دولت اسلامیہ بیویاں، اتنا ہی بڑا خطرہ ہیں جتنا کہ مرد۔ برطانوی عدالتوں کو مخصوص جرائم کے شواہد کی قلت کی وجہ سے بیگم شمیم جیسی خواتین کے خلاف مقدمات چلانے میں مزید سخت وقت سے گزرنا پڑے گا۔ نتیجے کے طور پر، یورپی ممالک، بالخصوص برطانیہ، اپنے شہریوں کو اپنے ہاں واپس لانے میں متذبذب ہیں۔ اس فیصلے کے پیچھے کارفرما سوچ کا تعلق دارصل اس ابہام سے جڑا ہے جو دولت اسلامیہ بیویوں کی اپنے شوہروں کے جرائم میں اپنے بعینہ کردار کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
کنگز کالج لندن میں قائم بین الاقوامی مرکز برائے مطالعہء بنیاد پرستی (انٹرنیشنل سنٹر فار دی سٹڈی آف ریڈیکلائزیشن) کی ریسرچ فیلو جینا ویل کے مطابق جو کچھ وہ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ دولت اسلامیہ نے خواتین کو اپنے طویل المعیاد منصوبوں کے مرکز میں رکھا۔
ویل کا، جن کا کام خواتین کو بنیاد پرست بنانے کے عمل اور خواتین شدت پسندوں کے کردار پر مرکوز ہے، کہنا ہے ’ان کا بنیادی کردار اپنے جہادی شوہروں کے لیے معاون بیوی ہونا اور دولت اسلامیہ حامیوں کی اگلی نسل بالخصوص مضبوط لڑکوں کو مستقبل کے جنگجووں کے طور پر پیدا کرنا ہے۔ غیر رسمی تعلیم اور گھر کے اندر ذہن سازی میں ماں کی شخصیت کا کردار اہم ہے، خصوصی طور پر قبل از سکول بچوں اور خلافت کے علاقائی انہدام کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کے لیے۔‘
’تاہم، ایسی اور خواتین بھی ہیں جنھوں نے رضاکارانہ طور پر دولت اسلامیہ کی ریاست پسند انتظامیہ میں مزید پرتشدد اور سرگرم اور بعد ازاں میدان جنگ میں خودکش آلہ کاروں اور مبارزوں کے کردار ادا کئے۔‘
شمیم بیگم (اے ایف پی)
ان میں زیادہ تر عراقی عدالتوں کے لیے تقریباً بےمعنی رہیں ہیں۔ یہ کافی تھا کہ ان خواتین نے اپنے شوہروں کے ہمراہ شام کا سفر کیا۔ لیکن کیا کچھ خواتین کو جانے کے لیے مجبور کیا جاسکا؟ ’یقیناً ایسی خواتین تھیں جنھیں کسی رشتہ دار، جو اکثر ان کا شوہر ہوتا تھا، کا دولت اسلامیہ کے علاقے میں جانے کے لیے ساتھ دینے پر مجبور کیا گیا یا انھیں دھوکے سے وہاں لے جایا گیا۔ میں اس پر تبصرہ نہیں کرسکتی کہ یہ حقیقت میں کتنا عام ہے، لیکن کئی خواتین نے اس کو اپنے ابتدائی سفر اور گروپ کے ساتھ شامل ہونے کی ابتدائی توجیہہ قرار دیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ جب ایک مرتبہ وہ وہاں پہنچ جاتیں، تو پھر یہ ان کے لیے تقریباً ناممکن ہوجاتا کہ وہاں سے نکلیں۔ انھوں نے کہا ’خواتین کے لیے ضروری ہوتا تھا کہ ہر وقت ایک محرم (مرد نگہبان) اپنے ساتھ رکھیں، اسی لیے وہ اکیلی حرکت نہیں کر سکتی تھیں۔ دوسرا یہ کہ، خواتین دولت اسلامیہ کے صوبوں کے درمیان آسانی سے سفر نہیں کرسکتی تھیں کیوں کہ ان کے پاس مرد جنگجووں کی طرح کسی مختلف مقام پر تعینات ہونے کا جواز نہیں ہوتا تھا۔ جیسا کہ خواتین کا بنیادی مقررہ کردار بیوی اور ماں کا تھا، تو ایسی کئی خواتین جو رضاکارانہ طور پر مزید فعال کردار ادا کرنا نہیں چاہتی تھیں وہ زیادہ تر گھر کے اندر رہتی تھیں۔‘
لیکن گھر کے اندر رہنا ان خواتین کو ان جرائم کی ذمہ داری سے مبراء نہیں کرتا جن کا ارتکاب دولت اسلامیہ نے کیا ہے۔ درحقیقت، ان میں کچھ انتہائی سنگین جرائم گھر کے اندر ہوئے ہیں۔
دولت اسلامیہ کے ہاتھوں یزیدی افراد کی نسل کشی کا آغازاس اقلیت کے تاریخی شہر سنجار، شمالی عراق، میں ہزاروں افراد کے قتل عام سے ہوا، لیکن اس کا اختتام یہاں نہیں ہوا۔ گروپ نے ہزاروں یزیدی خواتین کو غلام بنا لیا۔ وہ دولت اسلامیہ جنگجووں کے گھروں میں رہتی تھیں، جہاں انھیں ریپ، مارا اور فروخت کیا جاتا تھا۔
فری یزیدی فاونڈیشن کی بانی پری ابراہیم نے کہا ہے، ’ظاہر ہے کہ تشدد کی خاص کارروائیوں کا الزام فرد یا ان افراد پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے ریپ اور زیادتیوں کا ارتکاب کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ مجرمانہ اور، درحقیقت، نسل کشی کی کارروائیوں کا مکمل نیٹ ورک ان جرائم کے ارتکاب کے لیے مختارنامہ بن گیا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ان گھروں کی حفاظت، جہاں یزیدی خواتین کو رکھا جاتا تھا، عام طور پر دولت اسلامیہ کی خواتین ارکان کرتی تھیں۔ یزیدی خواتین کو دولت اسلامیہ کی خواتین ارکان کے ذریعے مارا جاتا تھا، ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی تھی، انھیں کمرے میں بند کیا جاتا تھا اور حتی کہ ریپ اور تشدد کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ حتمی مرتکب نہیں تھیں لیکن جنسی زیادتی کا ایک مکمل حصہ تھیں۔‘
ابراہیم نے مزید کہا کہ گرفتار دولت اسلامیہ بیویوں کے یہ دعوی کہ وہ معصوم ہیں یا انھوں نے ایسے کام کرنا چھوڑ دیا ہے، نظر انداز کر دینے چاہئیے۔ ’دولت اسلامیہ خواتین نے اگر خلافت کا اپنا علاقہ نہ کھو دیا ہوتا تو وہ کبھی بھی، کبھی بھی اپنا رویہ ترک یا درست نہ کرتیں۔ موجودہ عذر اور دعووں کے باوجود کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے یا وہ موردالزام نہیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ دولت اسلامیہ خواتین دولت اسلامیہ شدت پسندی کے بیانیے اور ساخت کا حصہ تھیں اور اب بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھی مردوں کی طرح، خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اور انھیں غیرصحیح طور پر حقیقی متاثرین کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہئیے۔‘
جب دولت اسلامیہ بیویاں کیمپوں میں انتظار کر رہی ہیں، ایسے انتہائی ظالم دہشت گرد گروپوں میں سے ایک جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، کی وفاداری سے تائب ہو رہی ہیں۔ ہزاروں یزیدی خواتین ابھی تک لاپتہ ہیں۔
انھیں مقدمے میں لے جانے کے لیے بین الاقوامی کوشش کے بغیر، ہم ان جرائم کی شدت کے بارے میں شاید ہی کبھی جان پاتے جس کا ارتکاب دولت اسلامیہ کی خواتین نے کیا ہے۔ ہم شاید کبھی نہ جان پاتے کہ ان میں خود کتنی ظلم کا شکار ہوئی ہیں۔
© The Independent