گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں دو دسمبر کو ایک مسافر بس پر فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والی ایک خاتون ایسی بھی ہیں، جنہوں نے اپنے بچوں اور شوہر کو بچانے کے لیے انہیں بس کی سیٹ کے نیچے چھپایا اور خود ان کے اوپر لیٹ کر گولیاں کھاتی رہیں۔
پولیس کے مطابق اس واقعے میں مسافر بس پر پہلے فائرنگ کی گئی تھی، جس کے بعد بس ٹرک سے ٹکرائی، جس کے نتیجے میں نو اموات ہوئی تھیں جبکہ 26 افراد زخمی ہوئے تھے۔
یہ بس گلگت سے راولپنڈی جا رہی تھی جس میں پاکستانی فوج کے اہلکاروں سمیت مختلف شہروں کے مسافر سوار تھے۔
گلگت بلتستان کے علاقے غذر کی رہائشی خاتون روشن بی بی اس واقعے میں اپنے بچوں اور شوہر کو بچانے کے دوران زخمی ہوئیں اور ابھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
چلاس واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ ایس پی شیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خاتون نے بچوں اور شوہر کو سیٹ کے نیچے چھپایا تھا اور خود ان کے اوپر بطور شیلڈ لیٹ گئی تھیں تاکہ انہیں گولیوں سے بچایا جا سکے۔
شیر خان نے بتایا: ’بچوں اور شوہر کو بچاتے ہوئے خاتون کو چھ گولیاں لگیں اور ابھی وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں، لیکن ان کی حالت تشویش ناک ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایس پی شیر خان نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور جے آئی ٹی کی سربراہی وہ کر رہے ہیں جبکہ ابتدائی تحقیقات اور دیگر معاملات کو مقامی علاقے کے ایس پی دیکھتے ہے۔
انہوں نے بتایا: ’حملے میں ملوث کوئی شخص گرفتار ہوجائے تو جے آئی ٹی متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر ان سے تفتیش کرے گی تاکہ ذمہ داران تک پہنچا جا سکے۔‘
چلاس واقعے کے بعد گلگت بلتستان میں ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے بطور سوگ دو دن پہیہ جام ہڑتال بھی کی تھی جبکہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
واقعے کی ذمہ داری بھی ابھی تک باضابطہ طور پر کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ اس سے پہلے چلاس میں کچھ فرقہ واریت کے واقعات ضرور سامنے آئے ہیں لیکن پولیس حالیہ واقعے میں فرقہ واریت کے عنصر کو مسترد کر رہی ہے۔
گذشتہ روز چلاس پولیس کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ حملہ کس نے کیا ہے اور نہ ہی ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔
روشن بی بی کی حالت اب کیسی ہے؟
روشن بی بی راجا میر نواز میر کی ماموں زاد بہن ہیں اور اس وقت وہ ان کے ساتھ ہسپتال میں موجود ہیں۔
انہوں نے ہسپتال سے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ روشن بی بی کو چھ گولیاں لگی ہیں جس میں چار گولیاں ریڑھ کی ہڈی میں لگی جبکہ ایک گردے اور ایک جگر میں لگی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گردے اور جگر کا آپریشن کر کے گولیاں نکالی گئی ہیں جبکہ کمر سے دو گولیاں نکالی گئی ہے لیکن دو اب بھی سی ٹی سکین میں آ رہی ہیں۔
راجا میر نے بتایا، ’ابھی جو گولیاں ہیں اس کو نکالنے کے لیے کل ڈاکٹرز کا پینل بیٹھے گا کیونکہ ڈاکٹرز کا مشورہ ہے کہ جگر اور گردے کے آپریشن کے بعد اب ریڑھ کی ہڈی سے گولیاں نکالنا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ ان کو سٹیبل ہونا لازمی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ڈاکٹرز بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ خاتون کو مفلوج ہونے سے بچایا جائے اور ’اب ہماری فیملی کی ایک درخواست ہے کہ جب بھی روشن بی بی سفر کے قابل ہو جائیں تو ان کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے مزید علاج کے لیے اسلام آباد متقل کیا جائے۔‘
بس میں فائرنگ کے وقت کیا ہوا؟
راجا میر نے بتایا کہ خاتون کے شوہر کے مطابق ان کا ایک بچہ دو سال کا اور دوسرا پانچ سال کا ہے اور بس میں ایک بچہ شوہر اور دوسرا والدہ کی گود میں بیٹھا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جوں ہی گولیاں چلیں تو پہلے ایک بچے کو سیٹ کے نیچے اور پھر دوسرے کو سیٹ کے نیچھے چھپا کر شوہر کو ان کے اوپر آہنی دیوار کی طرح لیٹا دیا۔
راجا میر نے بتایا، ’اس کے بعد خاتون خود شوہر کے اوپر لیٹ جاتی ہیں اور ساری گولیاں ان کے پیٹ پر ان کو لگیں۔‘
ریکوری کے بارے میں راجا میر نے بتایا کہ خاتون کی ریکوری اس وجہ سے بھی ہو رہی ہے کہ جب بھی وہ ہوش میں آتی ہیں تو ہم بچوں کو ان کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں جس سے ان کو حوصلہ ملتا ہے۔
’زخمیوں کا علاج معالجہ جاری‘
گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر شمس الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حملے کے زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں رکھا گیا ہے جبکہ بعض شدید زخمیوں کو شفا ہسپتال، اسلام آباد میں متنقل کیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’حکومت کی جانب سے خصوصی فنڈ سے زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ سمیت محکمہ صحت کا عملہ بھی زخمیوں کی عیادت کرنے پہنچا تھا۔‘
گلگت بلتستان میں ماضی میں شدت پسندی کی بڑی کارروائیوں میں سے ایک جون 2013 میں ہوئی تھی جب نانگا پربت کی چوٹی پر نو غیر ملکی کوہ پیماؤں پر حملہ کرکے انہیں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ’جیم سٹون‘ نامی جریدے کے مطابق گلگت میں سیاحت کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ ان کوہ پیماؤں کا تعلق امریکہ، سلواکیا، چین، یوکرین، نیپال اور لیتھووانیا سے تھا۔
اسی طرح چلاس ہی میں 2018 میں شدت پسندوں نے 12 سکولوں کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔گلگت بلتستان پاکستان میں پر امن علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں پر ملکی و غیر ملکی سیاح اس علاقے کے خوبصورتی دیکھنے آتے ہیں۔
اسی علاقے میں پاکستان میں کوہ پیمائی کے لیے مشہور چوٹیاں بھی موجود ہیں، جہاں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں غیر ملکی کوہ پیمائی کی غرض سے آتے ہیں۔