مصنوعی ذہانت پلیٹ فارم کی خالق کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کا کہنا ہے کہ وہ چیٹ جی پی ٹی کی ’سستی‘ کے بارے میں شکایات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں چیٹ جی پی ٹی کے تازہ ترین ورژن، جو اوپن اے آئی کے جی پی ٹی فور ماڈل پر بنایا گیا ہے، کے صارفین شکایت کر رہے ہیں کہ چیٹ بوٹ ان کی جانب سے دیے گئے کام سے انکار کر رہا ہے یا وہ ان کے سوالات کا جواب دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
مثال کے طور پر اگر کوئی صارف کوئی (سافٹ ویئر) کوڈ بنانے کا کہے تو وہ (چیٹ جی پی ٹی) محدود سی معلومات دیتا ہے اور پھر صارفین کو باقی حصوں کو خود بھرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ چیٹ بوٹ نے خاص طور پر ہتک آمیز انداز میں ایسا کیا۔ مثال کے طور پر وہ صارفین کو کہتا ہے کہ وہ یہ کام خود کرنے کے قابل ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈ اِٹ کے متعدد تھریڈز اور یہاں تک کہ اوپن اے آئی کے اپنے ڈویلپر فورمز کی پوسٹس میں صارفین نے شکایت کی کہ سسٹم زیادہ کارآمد نہیں رہا۔
انہوں نے یہ بھی قیاس کیا کہ یہ تبدیلی اوپن اے آئی کی طرف سے جان بوجھ کر کی گئی ہے تاکہ چیٹ جی پی ٹی زیادہ موثر ہو اور اسے طویل جوابات نہ دینے پڑیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت والے سسٹمز ان کمپنیوں کے لیے بہت مہنگے ثابت ہو رہے ہیں جو انہیں باقاعدہ استعمال کر رہی ہیں کیوں کہ سوالات کے تفصیلی جوابات دینے کے لیے انہیں کافی پروسیسنگ پاور اور کمپیوٹنگ وقت درکار ہوتا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی ملکیتی کمپنی اوپن اے آئی نے کہا ہے کہ وہ سسٹم کے بارے میں شکایات سے آگاہ ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ نئے ماڈل میں درحقیقت کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ بوٹ مختلف طریقے سے کیوں برتاؤ کر رہا ہے۔
کمپنی نے ایکس پر جاری پوسٹ میں لکھا: ’ہم نے جی پی ٹی فور کے سست ہونے کے بارے میں آپ کے تمام تاثرات سنے ہیں تاہم ہم نے 11 نومبر سے ماڈل کو اپ ڈیٹ نہیں کیا ہے اور یقینی طور پر ہم یہ جان بوجھ کر نہیں کر رہے۔ ماڈل کا رویہ غیر متوقع ہو سکتا ہے اور ہم اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اوپن اے آئی نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ آیا وہ شکایات سے متفق بھی ہیں یا نہیں یا انہیں لگتا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی نے سوالات کا جواب دینے کا طریقہ بدل دیا ہے۔
کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو سیم آلٹ مین کو کمپنی سے زبردستی نکالے جانے اور پھر چند دنوں بعد ایک بار پھر شامل کیے جانے کے بعد کمپنی میں اتھل پتھل دیکھی گئی تھی۔
© The Independent