یوکرین اور اب غزہ نے عالمی طاقتوں کو آج کل کافی مصروف رکھا ہوا ہے۔ افغانستان کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ترجیع نہیں ماسوائے شاید پاکستان کے۔
لیکن پاکستان کی افغان پناہ گزینوں سے متعلق حالیہ پالیسی نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو کچھ توجہ دینے پر مجبور کیا ہے۔
امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ اس سال جنوری کے دورے کے بعد گذشتہ دنوں دوبارہ اسلام آباد آئے۔
ان کے آنے کی واحد بڑی وجہ پاکستان میں موجود افغان شہریوں کے انخلا کا جاری سلسلہ تھا۔ امریکہ اور کئی دیگر مغربی ممالک اس انخلا کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اب تک ساڑھے چار لاکھ سے زائد غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہری واپس اپنے وطن لوٹ چکے ہیں۔ لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی ان افراد کو، جنہوں نے ماضی میں ان کے ساتھ افغانستان میں مدد کی، زبردستی بھیجے جانے پر زیادہ تشویش ہے۔
انہیں خدشہ ہے کہ افغان طالبان عام معافی کے اعلان کے باوجود انتقامی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ اس میں ایسے 25 ہزار افراد کی فہرست بھی ہے جو مبینہ طور پر امریکہ نے پاکستان کو دی کہ انہیں واپس نہ بھیجا جائے کیونکہ انہیں خطرہ ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد میں امریکی یا پاکستانی حکام اس فہرست کے بارے میں باظابطہ بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں لیکن سرکاری سطح پر بات چیت دونوں کے درمیان جاری ہے۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی سفارت خانے نے 25 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو خطوط جاری کیے ہیں اور ان کے ناموں سے پاکستانی حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ فہرست واضح نہیں اور اس نے مزید تفصیل مانگی ہے۔ اس وقت یہ افغان شہری پاکستان میں ہیں اور امریکہ منتقلی کے منتظر ہیں۔
امریکی حکام بظاہر ان افراد کی زیادہ معلومات شیئر کرنے سے ان افراد کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالنے کے خوف سے کترا رہے ہیں۔
ایک اعلیٰ سفارتی اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ امریکہ پاکستان کی اس یقین دہانی سے مطمئن ہے کہ افغان اقلیتوں کو خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ تاہم وہ اس پروفائلنگ کے نظام کو مزید بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔
امریکی خصوصی ایلچی ٹام ویسٹ نے دو روزہ دورے کے اختتام پر ایک ٹویٹ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ذکر پہلے اور افغان پناہ گزینوں کا دوسرے نمبر پر کیا۔
انہوں نے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی، فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر اور اپنے پاکستانی ہم منصب آصف درانی کے ساتھ ٹی ٹی پی کی وجہ سے سکیورٹی چیلنجوں اور افغان پناہ گزینوں کے تحفظ سے متعلق گفتگو کو مفید قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ خطے میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ’ہم پناہ گزینوں کے تحفظ کے امور بشمول آئی اوز کے ساتھ تعاون اور انسانی اور باوقار سلوک سمیت اسلام آباد کے ساتھ قریبی رابطے پر بھی شکر گزار ہیں۔‘
ایک اور ٹویٹ میں ٹام ویسٹ نے لکھا کہ انہوں نے دورے کے دوران ’بہادر افغان پناہ گزینوں سے بھی ملاقات کی تاکہ ان کی زندگیوں کے بارے میں براہ راست سنا جا سکے، دل دہلا دینے والے حالات میں ان کی ہمت کی تعریف کرسکیں۔ ہم ان کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں اور یو این ایچ سی آر، آئی او ایم اور دیگر شراکت داروں کا ان کی کوششوں پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘
سفارتی اہلکار نجی ملاقاتوں میں اس خدشے کا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ جبری طور پر واپس لوٹنے والوں میں سے کچھ ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔
افغان طالبان کے معیشت کے بہتری کی جانب گامزن ہونے کے دعوؤں کے برعکس مغربی سفارت کار سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں معاشی صورت خراب ہے اور موسم سرما افغان باشندوں کے لیے مزید خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ اگرچہ طالبان کے ساتھ براہ راست رابطے میں بھی ہے لیکن وہ کسی معاشی تعاون کا تاثر نہیں دینا چاہتا۔ وہ مالی امداد اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کے ذریعے کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کا خیال ہے کہ اگر بےروزگاری اور دیگر معاشی مسائل کو ابھی سے نہیں حل کرنے کی کوشش کی گئی تو آگے چل کر بین القوامی برادری کو زیادہ پیسہ لگانا پڑے گا۔
عالمی برادری افغانستان میں منشیات کے خلاف طالبان کے حکم سے 90 فیصد پیداوار میں کمی کی تائید کرتے ہیں لیکن اس خدشہ کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ دیگر قسم کی منشیات کی تیاری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اب تک کسی ملک کے طالبان حکومت کے مطالبے کے باوجود اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں پانچ اہم پہلو گنوائے جا رہے ہیں جن پر کوئی پیش رفت اب تک نہیں ہوئی ہے۔
پہلا یہ کہ افغان طالبان تحریک کے 135 افراد پر سفری پابندیاں آج بھی برقرار ہیں۔
اقوام متحدہ میں کسی ملک نے اب تک ان پابندیوں کو اٹھانے کے لیے آواز اٹھائی ہے، دوسرا افغانستان کے ملک سے باہر 90 ارب ڈالرز کے اثاثوں میں سے ایک ڈالر بھی واپس نہیں کیا گیا، اقوام متحدہ میں طالبان کے نمائندے سہیل شاہین آج بھی دوحہ میں بیٹھے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں نے ابھی کابل کے ساتھ کوئی لین دین استوار نہیں کیا۔
تاہم افغان طالبان کہتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کی تسلیم ہونے کے لیے تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور اس میں تاخیر مفید ثابت نہیں ہوگی۔
افغانستان کے مسئلے کو لے کر عالمی افق پر ایک تعطل والی صورت حال ہے۔ یہ تعطل افغان طالبان کے لیے تو ایک طرح سے اچھا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مزید مضبوط کر رہے ہیں لیکن افغان عوام کے لیے اچھا شگون نہیں۔ وہ اس تاخیر سے مزید متاثر ہوں گے۔