نگران وفاقی وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے پیر کو پولیس لائنز میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے دہشت گردی کے خلاف جیتی ہوئی جنگ پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں دوبارہ لڑنی پڑ رہی ہے۔
’یہ افواج پاکستان اور سول آرمڈ فورسز کی نہیں بلکہ ریاست کی جنگ ہے، اس میں کامیابی کے لیے پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت ناگزیر ہے۔‘
وہ پیر کو پولیس لائنز اسلام آباد میں پولیس کانسٹیبلز کے 39 ویں بیچ کی تقریب حلف برداری سے خطاب کر رہے تھے۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ ’اس وقت ہمیں دو طرح کے چیلنجز درپیش ہیں جن میں مذہب کی بنیاد پر دہشت گردی اور قوم پرستی کی بنیاد پر دہشت گرد ی شامل ہے۔ حالانکہ ان دونوں چیزوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک سازش کے تحت دہشت گردی کو مذہب اور قوم پرستی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’ملک کو کمزور کرنے کے لیے پراکسیز لڑی جارہی ہیں، ان کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز نے قربانی کے عظیم جذبے کے ساتھ فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کر دنیا میں نئی مثال قائم کر دی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’1947 کے بعد ہم سب کی ایک ہی شناخت ہے وہ ہے پاکستانی، ہم سب سے پہلے پاکستانی اور اس کے بعد سندھی، بلوچی، پنجاب، سرائیکی، گلگتی اور کشمیری ہیں، اس سازش کو بھی ہم بحثیت قوم مل کر ناکام بنا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایک بات واضح ہے کہ طاقت کے استعمال کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہی ہے، تشدد کی راہ اپنانے والوں کے ہاتھ روکنا پڑیں گے۔ بلوچستان میں گزشتہ روز دہشت گردی کے واقعے میں سی ٹی ڈی کا انسپکٹر شہید ہوا، کچھ دن قبل بھی سی ڈی ٹی کا افسر شہید ہوا تھا لیکن دوسری جانب سی ٹی ڈی پر مقدمات بھی بن رہے ہیں، بحثیت قوم جنگ لڑنے کے لیے کچھ سوچنا ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب ادارے غیر سیاسی ہو جاتے ہیں تو وہ مضبوط ہوتے ہیں، اداروں کے اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل ناگزیر ہے۔‘
وزیر داخلہ نے نئے بھرتی ہونے والے پولیس جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزاریں گے تو پھر کرپشن کی جانب راغب نہیں ہوں گے۔ ملک کے دیگر چیلنجز کی طرف معاشرے میں کرپشن بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ جب ہم سب ٹھیک ہو جائیں تو کوئی طاقت ہمیں ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ ہم نے اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا ہے کہ ہم پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔‘