پاکستان میں ’موت کو قریب‘ سے دیکھنے والے کوہ پیما کے لیے ایوارڈ

پاکستان میں برفانی تودے میں پھنسنے کے بعد موت کو قریب سے دیکھنے والے سکاٹش کوہ پیما نے الپائن کلائمبنگ اور کوہ پیمائی کا سب سے بڑا اعزاز ’پیولے ڈی او‘ جیت لیا۔

یہ اعزاز گلاسگو سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ ٹم ملر اور 54 سالہ پال رامسڈن کو نیپال میں ماضی کی ناقابل تسخیر اور بے نام چوٹی کو سر کرنے پر دیا گیا (ملر ماؤنٹین گائیڈز / فیس بک)

پاکستان میں برفانی تودے میں پھنسنے کے بعد ’موت کو قریب‘ سے دیکھنے والے سکاٹش کوہ پیما نے الپائن کلائمبنگ اور کوہ پیمائی کا سب سے بڑا اعزاز ’پیولے ڈی او‘ جیت لیا۔

پیولے ڈی او، جس کا فرانسیسی میں ترجمہ ’سنہری برف کی کلہاڑی‘ ہے، کو کوہ پیمائی کے شعبے میں آسکر جتنی اہمیت حاصل ہے۔

یہ اعزاز گلاسگو سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ ٹم ملر اور 54 سالہ برطانوی کوہ پیما پال رامسڈن کو نیپال میں ماضی کی ناقابل تسخیر اور بے نام چوٹی کو سر کرنے پر دیا گیا۔ اب نیپال میں اس چوٹی کو ’جوگل سپائر‘ کا نام دیا گیا ہے۔

برطانوی کوہ پیماؤں نے ’الپائن سٹائل‘ میں ایک نیا راستہ بنا کر 21 ہزار 532 فٹ بلند چوٹی کو سر کیا تھا۔ الپائن سٹائل کی اصطلاح بغیر آکسیجن، فکسڈ رسیوں یا شیرپا (سامان اٹھانے والے مزدور) کی مدد کے بغیر چوٹی سر کرنے کوشش کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ٹم ملر اور پال رامسڈن نے گذشتہ سال اپریل میں کٹھمنڈو کے قریب چوٹی پر چڑھتے ہوئے نرم برف، جمی ہوئی برف اور گرینائٹ کی انتہائی عمودی ڈھلوان کا سامنا کیا تھا۔

کوہ پیماؤں کی بین الاقوامی تنظیم ’ایکسپلورر ویب‘ کے مطابق ٹم ملر نے کہا ہے کہ وہ امریکہ سے کئی پروازوں، سڑک کے غیر ہموار سفر اور چھ دن کی ٹریکنگ کے بعد وادی کے دامن میں واقع بیس کیمپ پہنچے اور وہاں پہنچنے پر انہیں اصل مشکل کا اندازہ ہوا۔

ان کے بقول: ’چوٹی کے سفر کے لیے کوئی واضح راستہ نہیں تھا کیونکہ پہاڑ اپنی فیچرز کی وجہ سے کافی پیچیدہ تھا جن میں تیز دھار کنارے اور چٹانی پشتے، گلیشیئرز اور برفانی چوٹیاں شامل تھیں۔‘

ملر نے کہا کہ ’ہم نے ہر آپشن آزمایا جب تک کہ ہمیں مناسب چڑھائی والا راستہ اور نیچے کی ممکنہ گزرگاہ نظر نہیں آئی۔ تب ہی ہم نے اس چوٹی کو سر کرنے کا عزم کیا۔‘

وہ نرم برف اور جمی ہوئی سخت برف کے کچھ مشکل ٹکڑوں کو چھوڑتے ہوئے پہاڑ کے پہلے نصف حصے تک تیزی سے آگے بڑھے۔

لیکن راستے کے تقریباً تین چوتھائی حصے پر وہاں ایک عمودی چٹان حائل تھی جہاں سے کوئی واضح راستہ نہیں تھا۔ یہ یقینی طور پر چڑھنے کے لیے مسٔلے کی جڑ تھی۔

وہ چوتھے دن چوٹی پر پہنچ گئے لیکن موسم خراب ہو گیا اور انہوں نے اسی دن اترنے کے بجائے چوٹی کے بالکل نیچے کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پانچویں دن انہوں نے اترائی شروع کی۔ پچھلی سہ پہر سے پڑنے والی مزید تازہ برف کی موجودگی نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس صورت حال نے ڈھلوان کے زیادہ تر حصے پر برفانی تودے گرنے کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے اترائی کو اور بھی زیادہ خطرناک اور پریشان کن بنا دیا۔

ملر نے کہا: ’ہم ایک چٹان کے کنارے سے نیچے اترے اس لیے وہاں رسی کا سہارا نہیں تھا۔ اس میں سے زیادہ تر ایسے ہی نیچے اترنے کی ضرورت تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ ہماری رفتار مزید سست ہو گئی۔ آخرکار دو دن مزید لگ گئے۔ یہ سب سے مشکل حصہ نہیں تھا لیکن ہم دونوں تھکے ہوئے تھے اس لیے ذہنی طور پر یہ سب سے مشکل حصہ لگ رہا تھا۔‘

37 پچز کے بعد وہ چوٹی پر پہنچے، نیچے اترے اور اس راستے کو بدلنے والی خصوصیت کی وجہ سے ’دی فینٹم لائن‘ کا نام دیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں فراسٹ بائٹ کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ چوٹی سر کرنے کے بعد نہایت پرجوش تھے۔

یہ کامیابی تقریباً پانچ سال بعد سامنے آئی جب ٹم ملر نے پاکستان میں قراقرم رینج کے التر سار پہاڑ پر ایک مہلک برفانی تودے میں پھنسنے کے بعد موت کو انتہائی قریب سے دیکھا تھا۔

وہ پاکستان میں کوہ پیماؤں کے ایک گروپ کے ساتھ 19,300 فٹ  کی اونچائی پر کیمپ لگا رہے تھے جب برفانی تودہ ان پر آ گرا اور وہ اپنے خیمے سمیت برف کے نیچے دب گئے۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ خیمے کے کپڑے کو چبا کر اوپر جانے میں کامیاب ہو گئے جب کہ گروپ کے کچھ ارکان کبھی باہر نہیں نکل پائے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دوست بروس نارمنڈ کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ایک اور دوست کرسچن ہیوبر کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔

یہ دونوں کوہ پیما اپنے ٹوٹے ہوئے خیمے میں دو دن تک زندگی اور موت کے درمیان لٹکے رہے کیونکہ وہ پاکستان کی ریسکیو سروسز کی جانب سے انہیں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نکالنے کے لیے موسم کے معمول پر آنے کا انتظار کر رہے تھے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل