عام طور پر فارمی چکن کہلانے والی مرغیوں کا وزن بڑھانے کے لیے گذشتہ 100 سالوں سے سائنس دان تحقیق کر رہے ہیں، جس میں 35 دنوں میں جلدی وزن بڑھنے کی صلاحیت رکھنے والی مرغیوں کی بریڈنگ کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے۔
تاہم عام تاثر یہی ہے کہ برائلر چکن کو بڑھنے کے لیے ہارمونز والے انجیکشن کا استعمال کیا جاتا ہے اور ایسی خوراک دی جاتی ہے جس سے کینسر کے مرض کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
ابتدا میں برائلر چکن کی بھی دیسی مرغیوں کی طرح افزائش ہوا کرتی تھی اور اس وقت برائلر میں بڑھنے کی صلاحیت دیسی چکن کی طرح تھی۔
تاہم یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کے مطابق: ’1920 میں سائنس دانوں کی مسلسل تحقیق اور بہترین بریڈ کے انتخاب کے عمل سے 120 دن کی زندہ چکن کا وزن ایک کلو جبکہ سال 2020 تک (تحقیق کی مدد سے) 35 دن کی مرغی کا وزن دو کلو سے زیادہ تک پہنچ گیا۔‘
اب سوال یہ ہے کہ 35 دنوں میں چکن کا وزن دو کلو تک پہنچانے کے لیے کیا اقدامات لیے گئے۔
یونیوسٹی کے محقیقین کے مطابق اس معاملے میں سائنس دانوں نے ایسی بریڈ کا انتخاب کیا جس میں جلدی بڑھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔اسی طرح کے پیغامات گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر بھی چل رہے ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ شوکت خاتم ہسپتال پشاور نے کوئی ریسرچ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ برائلر چکن کے خوراک میں استعمال سے کینسر کا خطرہ ہے۔
ان خبروں کی حقیقت اور برائلر چکن کا کینسر کے ساتھ تعلق کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ تحقیقی مقالوں اور ماہرین سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی برائلر چکن کھانے سے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
ڈاکٹر یاسر انعام پشاور کے شوکت خاتم کینسر ہسپتال میں کلینیکل انکالوجی کے رجسٹرار ہیں اور ان کا ہسپتال میں مختلف مریضوں سے رابطہ رہتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کینسر کی بیماری کے وجوہات میں مختلف عوامل کارفرما ہے لیکن یہ کہنا کہ برائلر چکن سے ہی کینسر لگی سکتی ہے، درست نہیں ہے اور نہ ایسی کوئی تحقیق شوکت خانم نے جاری کی ہے۔
ڈاکٹر یاسر نے بتایا، ‘کینسر ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتے ہیں جو کارسینوجین نامی عناصر سے لاحق ہوسکتا ہے اور کارسینوجین سگریٹ نوشی، کیمیکلز(آرسینیک وغیرہ)، خوراک میں چند کھانوں اور جیناتی طور بھی ہوتا ہے۔‘
امریکہ کے کلیولینڈ کلینک کے مطابق دنیا میں آپ تمام کارسینوجین والی اشیا سے رابطہ منقطع نہیں کر سکتے اور نہ اپنے آپ کو مکمل طور پر بچا سکتے ہیں۔
’جیسا کہ سورج کی کرنوں سے الٹراوائلٹ شعاعوں میں بھی کارسینوجین ہوتے ہیں اور پانی میں بھی آرسینیک کی تھوڑی مقدار ہوتی ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ کارسینوجین سے ہی آپ کو کینسر ہو جائے۔‘
لیکن بعض کارسینوجین جیسا کہ الکوہل مشروبات یا سگریٹ نوشی میں موجود کارسینوجین سے انسان بچ سکتا ہے جبکہ بعض اوقات فیملی میں کینسر کا مرض موجود ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہی کارسینوجین کینسر بننے کی وجہ بنتا ہے۔
اسی طرح کلیولینڈ کلینک کے مطابق کوئی بھی گوشت جب آگ پر زیادہ درجہ حرارت پر پکائی جاتی ہے جیسے بار بی کیو کے طریقے سے، تو اس میں بھی کارسیونیجیک مواد قدرتی طور پر بن جاتے ہیں۔
تاہم ڈاکٹر یاسر نے بتایا کہ اب تک ایسی کوئی تحقیقی سامنے نہیں آئی ہے کہ فلاں چیز میں کارسینوجین کا استعمال کینسر کی واحد وجہ بتائی گئی ہے لیکن یہ مختلف فیکٹرز مل کر کینسر لگنی کہ وجہ بنتی ہے۔
یہی تفصیل یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنز لاہور نے اپنے ویب سائٹ پر فراہم کی ہے۔ اسی یونیوسٹی کے مطابق یہ صرف ایک مفروضہ ہے کہ پاکستان کی پولٹری انڈسٹری میں آرسینک کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے کینسر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق پاکستان پولٹری انڈسٹری میں آرسینک کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا ہے تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں 1940 سے ’تھری نائٹرو‘ اور ’روکسرازون‘ نامی کیمیکل کا استعمال کیا جاتا تھا جس سے آرسینک کا مواد چکن میں رہ جاتا تھا لیکن اب اس پر عالمی مارکیٹ میں پابندی عائد کی گئی ہے اور پاکستان میں یہ مواد درآمد ہی نہیں کیا جاتا۔
یونیورسٹی کے مطابق بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ برائلر مرغیوں کو جلدی بڑھانے کے لیے کسی خاص ہارمون یا انجیکشن کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی صرف ایک مفروضہ ہے اور اس میں بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی تحقیق کے تحت بتایا گیا کہ مرغیوں کا وزن بڑھانے کے لیے پاکستان میں بہترین بریڈ کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں 35 دنوں میں بڑھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جبکہ وزن بڑھانے کے لیے متوازن غذا جس میں پروٹین ہو وہ دی جاتی ہے۔
یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنسز نے امریکہ کی فیڈرل ڈرگ اتھارٹی (ایف ڈی اے) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں یہ خبر رپورٹ ہوئی تھی لیکن یہ غلط انفارمیشن تھی یعنی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی گئی تھی۔
اسی یونیورسٹی کے مطابق ایف ڈی اے کی رپورٹ آرسینیک کے استعمال پر تھی لیکن اس تحقیق کے لیے کسی پولٹری فارم سے نمونے نہیں لیے گئے تھے کہ وہاں پر آرسینیک کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ ٹرائل کے طور پر کسی خوراک میں آرسینیک کو شامل کیا گیا تھا اور پھر اس پر تحقیق کی گئی تھی اور نتیجہ یہ نکلا تھا کہ آرسینیک کے استعمال سے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
اسد علی خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ ہلال فوڈ اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں اور ان کا ادارہ صوبے میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق خوراک کو ممکن بنانے کے ذمہ دار ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ایک تو عام تاثر یہ ہے کہ مرغیوں کی افزائش کے لیے کوئی انجیکشن یا ہارمون دیا جاتا ہے جو سراسر ایک مفروضہ ہے کیونکہ مرغیاں انجیکشن یا ہارمون سے نہیں بڑھتے۔‘
اسد علی کے مطابق ابھی جو خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، اس حوالے سے ہم نے لائیو سٹاک ڈپارٹمنٹ کے ساتھ اس موضوع پر بات بھی کی ہیے اور ہم نے اس حوالے سے ایک آگاہی پوسٹر بھی جاری کیا ہے۔
اسد علی نے چکن فیڈ یا خوراک میں آرسینیک (جو کینسر کا سبب بن سکتا ہے) کے استعمال کے حوالے سے بتایا: ’اگر مرغیوں کی خوراک میں ہیوی میٹل (ارسینیک وغیرہ) کا استعمال ہوں، تو اس سے مرغیوں کی اموات کی شرح 90 فیصد سے زیادہ ہوجاتی ہے اور کوئی بھی پولٹری فارم یہ نہیں کرے گا۔ ‘
اسد علی کے مطابق، ’پولٹری انڈسٹری اور یہاں درآمد ہونے والی خوراک پاکستان سے رجسٹرڈ ہوتی ہے اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف یا کوئی ممنوع مواد مرغیوں کی خوراک میں ملایا جائے۔‘
مرغیوں کو انجیکشن لگانے کے حوالے سے اسد علی نے بتایا کہ مرغیوں کو مختلف بیماریوں کے لیے صرف ویکسین لگائی جاتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی ہارمون والا انجیکشن لگانے میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
اسد علی نے بتایا، ‘ابھی تک ہم بعض اوقات مردہ مرغیاں پکڑتے ہیں اور اس کی ٹیسٹنگ کے دوران مرغیوں کی عام بیماریوں کے علاوہ ہم نے ایسی کوئی خطرناک چیز مرغیوں کے گوشت میں نہیں دیکھی ہے۔‘