پاکستان میں لوگ چینی کھانا بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ مختلف رنگوں کی سبزیوں کے ساتھ بنے فرائڈ رائس اور ان کے ساتھ بھاپ اڑاتا ہوا چکن منچورین بہت سے لوگوں کا پسندیدہ ہوتا ہے۔
لیکن کیا یہ چکن منچورین چین میں ملتا ہے؟ یہ جاننے سے پہلے چکن منچورین نامی ڈش کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔
چکن منچورین جنوبی ایشیا میں مشہور ایک کھٹی میٹھی گریوی ہے جو لوگ فرائڈ رائس یا نوڈلز کے ساتھ کھاتے ہیں۔ اسے بنانے کے لیے چکن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو میدے سے بنے محلول میں ڈبو کر ڈیپ فرائی کیا جاتا ہے۔ پھر انہیں سویا ساس، سرکہ اور کارن سٹارچ سے بنی ہوئی گریوی میں پکا کر فرائڈ رائس کے ساتھ سرو کیا جاتا ہے۔
بھارت میں منچورین چکن کے علاوہ پھول گوبھی، پنیر اور مکسڈ سبزیوں کے قوفتوں سے بھی بنایا جاتا ہے۔
لیکن چین میں منچورین کی تلاش میں نکلا جائے تو شاید خدا مل جائے پر منچورین نہ ملے۔ منچوریا چین کے 31 صوبوں میں سے ایک صوبہ ہے اور ان میں سے ہر صوبے کا اپنا کھانا ہے، اپنی روایات ہیں، اپنے رسم و رواج ہیں۔ کسی کا بالکل پھیکا تو کسی کا مرچوں میں پکا ہوا۔
ایک صوبے میں کھانے کو تیل کی شکل بھی نہیں دکھائی جاتی اور دوسرے صوبے میں جیسے کھانے کو پکایا ہی تیل میں جاتا ہے۔
انڈو چائنیز کھانوں کو کھٹا میٹھا بنانے کے لیے ان میں پسے ہوئے ٹماٹروں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار کیچپ کا استعمال بھی کر لیا جاتا ہے جبکہ چین میں فاسٹ فوڈ کے ساتھ بھی کیچپ مانگنے پر ملتی ہے۔
جنوبی چین میں ہر کھانے میں چاول کھائے جاتے ہیں جبکہ شمالی چین میں نوڈلز اور بریڈ کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ چاول بھی صرف ابلے ہوئے ہوتے ہیں۔ فرائڈ رائس ریستورانوں میں ہوتے ہیں مگر کم کم ہی آرڈر کیے جاتے ہیں۔
انڈو چائنیز کھانے چاولوں یا نوڈلز کے ساتھ کھائے جاتے ہیں۔ چین میں چاول، نوڈلز یا بریڈ کھانے کے آخر میں بس پیٹ بھرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔
منچورین جیسی کھٹی میٹھی گریوی تو یہاں نہیں ملتی لیکن سبزیوں اور مشرومز کے ساتھ تلا ہوا چکن یا بیف اکثر نظر آ جاتا ہے۔
ایک بار کسی ریستوران میں پائن ایپل چکن بھی نظر آیا تھا۔ اس میں ڈیپ فرائڈ چکن کو پائن ائپل کے ٹکڑوں اور رس سے بنی ہوئی گریوی میں پکایا گیا تھا۔ وہ ڈش کھا کر ایسا لگا جیسے میں بیجنگ کے کسی ریستوران میں نہیں بلکہ لاہور کے کسی چینی ریستوران میں موجود ہوں۔
تو پھر یہ چکن منچورین کہاں سے آیا؟
چکن منچورین کا تعلق چینی کھانوں سے نہیں بلکہ انڈو چائنیز کھانوں سے ہے۔ یہ وہ کھانے ہیں جو چین سے بھارت ہجرت کر کے آنے والے چینی باشندوں نے دونوں ممالک کے ذائقوں کو ملا کر ایجاد کیے تھے۔
یہی کھانے ہمیں پاکستان کے چینی ریستورانوں میں ملتے ہیں۔
چکن منچورین آج سے 35 سال قبل بھارت کے شہر کلکتہ سے تعلق رکھنے والے ایک چینی نژاد شیف نیلسن وانگ نے ایک گاہک کی فرمائش پر چینی اور بھارتی مصالحوں اور کھانا پکانے کے طریقوں کو ملا کر ایجاد کیا تھا۔
وانگ کے دادا اور دادی چین سے ہجرت کر کے بھارت منتقل ہونے والے اولین چینیوں میں سے تھے۔ انہوں نے بھارت کے شہر کلکتہ کو اپنا گھر بنایا اور وہیں اپنے خاندان کو پروان چڑھایا۔
وانگ کے والد جوتے بنانے کے ساتھ ساتھ شیف کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ ان کے چھ بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ ان کے والد نے ان سب کے پیشے طے کیے ہوئے تھے۔ کسی کو ڈاکٹر بنایا تو کسی کو انجینئیر۔
وانگ چینی ثقافت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے 12 برس کی عمر میں ہی اپنے والد کا ریستوران میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ 18 برس کی عمر تک وہ ایک ماہر شیف بن چکے تھے۔
ان کے والد نے اپنے تمام بچوں کو کینیڈا منتقل کر دیا۔ وانگ نے بھارت میں رہنے اور کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے والد کو ان کا یہ فیصلہ بالکل پسند نہیں آیا۔
انہوں نے کینیڈا منتقل ہونے سے پہلے ان کے پاس کوئی رقم نہیں چھوڑی۔ بس ایک ہوائی جہاز کا ٹکٹ رکھ دیا تاکہ وہ کچھ دن میں پیسے ختم ہونے کے بعد مجبوراً کینیڈا آ جائیں۔
وانگ نے ایسا نہیں کیا۔ وہ بنگلور چلے گئے اور وہاں ایک ہوٹل میں بطور چینی شیف کام کرنے لگے۔ بدقسمتی سے وہ ہوٹل وانگ وہاں سے حیدرآباد چلے گئے۔ وہاں انہوں نے نان کنگ چائنیز ریستوران میں کام کرنا شروع کر دیا۔
1973 میں وہ اپنی قسمت آزمانے ممبئی آئے۔ اس وقت ان کی جیب میں صرف 27 روپے تھے۔ انہوں نے ممبئی کے ایک چھوٹے سے ریستوران میں کام کرنا شروع کر دیا۔ پھر انہیں کرکٹ کلب آف انڈیا میں نوکری ملی۔ قسمت کی دیوی ان کے اسی قدم کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے بعد وہ ان پر ایسے مہربان ہوئی کہ وہ خود بھی حیران رہ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کہا جاتا ہے کہ ایک دن انہیں ایک گاہک نے ان کے لیے کچھ ایسا بنانے کا کہا جو مینیو کارڈ میں درج نہیں تھا۔
انہوں نے چیلنج قبول کرتے ہوئے بھارتی اور چینی کھانا بنانے کی تیکنیکوں کو ملاتے ہوئے ایک نئی ڈش بنائی اور اسے منچورین کا نام دیا۔
ان کی اس نئی ڈش میں بھارت کا ذائقہ دینے کے لیے لہسن، ادرک اور ہری مرچ کا استعمال کیا، اور چینی ذائقے کے لیے سویا ساس، سرکہ اور کارچ سٹارچ ملایا۔
گریوی بن گئی تو انہوں نے اس میں فرائی کیا ہوا گوشت اور سبزیاں شامل کیں اور یوں پاکستان اور بھارت میں لاکھوں لوگوں کی پسندیدہ ڈش وجود میں آئی۔
یہ ڈش ان دونوں ممالک میں موجود ہر چینی ریستوران میں ملتی ہے لیکن چین کے کسی ریستوران میں اس کا نام بھی کہیں نظر نہیں آتا۔
وانگ نے اس کے علاوہ بھی بہت سے انڈو چائنیز کھانے ایجاد کیے۔ انہوں نے 1983 میں ’چائنا گارڈن‘ کے نام سے ممبئی میں اپنا ریستوران کھولا۔ آج اس ریستوران کی بھارت میں کئی شاخیں موجود ہیں۔