الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بیوروکریٹس کی ریٹرننگ افسران (آر اوز) اور انتخابی عملے کے طور پر تعیناتی کے فیصلے کو معطل کیے جانے کے بعد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز (ڈی آر اوز) اور ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز) کی تربیت کو روک دیا گیا ہے۔
عدالت عالیہ نے یہ حکم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کے لیے بیوروکریٹس کی بطور آر اوز تقرریوں کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات ایگزیکٹو سے کروانے کے خلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔
عام انتخابات کے دوران پنجاب کی بیوروکریسی سے ریٹرننگ افسران لینے کے خلاف عمیر نیازی کی درخواست پر عدالت نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کے انعقاد میں قوم کے اربوں روپے استعمال ہوتے ہیں، بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کردیا تو سارا پیسہ ضائع ہو جائے گا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ زمینی حقائق کے مطابق درخواست گزار کی جماعت کو لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہیں، لیول پلیئنگ فیلڈ کی عدم دستیابی پر آزادانہ رائے رکھنے والے متعدد گروپس نے سنجیدہ نوٹس لیا ہے، معاملے کی اہمیت اور قانونی نکات کی تشریح کے لیے لارجر بینچ بنانے کی سفارش کی جاتی ہے۔
گذشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کے لیے ڈپٹی کمشنرز کے بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران ( ڈی آر اوز)، ریٹرننگ افسران ( آر اوز) اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران ( اے آر اوز) کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس نوٹی فکیشن کے بعد متعلقہ افراد کی تربیت بھی شروع کر دی تھی جو کہ اب ہائی کورٹ کے حکم نامے کے بعد روک دی گئی ہے۔
اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ’انتخابی عملے کو مکمل کرنے کے لیے افسران کی تقرری الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ وہ ریٹرننگ افسران انتظامی افسران کو بنائیں یا عدلیہ سے لیے جائیں، اس عمل کا انتخابات کی شفافیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن )کے مرکزی عہدیدار چوہدری رشید کے مطابق ’ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران ہوں یا دیگر انتخابی عملہ انہوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایات اور طے شدہ قوائد و ضوابط پر ہی عمل کرنا ہوتا ہے۔‘
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کی سب سے پہلے کوشش ہوتی ہے کہ انتخابات کے لیے عدالتی افسران یعنی ججز کی خدمات حاصل کی جائیں۔
’اس بار بھی چیف الیکشن کمشنر نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو خطوط لکھے کہ الیکشن ڈیوٹی کے لیے ماتحت عدلیہ سے ججز فراہم کیے جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’لیکن چیف جسٹسز نے کہا کہ عدالتوں پر پہلے ہی کیسوں کے التوا کا دباؤ ہے لہذا ججز انتخابی عمل میں فرائض انجام نہیں دے سکتے۔‘
کنور دلشاد کے بقول: ’اس جواب کے بعد الیکشن کمیشن نے صوبائی انتطامیہ سے ڈیوٹی کے لیے افسران کو مقرر کیا۔ لہذا ہر ضلع کا ڈی سی ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر جبکہ ان کے ماتحت افسران ریٹرنگ افسران ہوں گے۔ اسی طرح دیگر عملہ بھی مختلف محکموں کے ملازمین پر مشتمل ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انتظامی افسران کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے۔
’چیف الیکشن کمشنر پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ انتخابی شیڈول بھی 14 دسمبر تک جاری ہو جائے گا۔ کیونکہ شیڈول پولنگ سے 54 دن پہلے جاری کرنا آئینی ذمہ داری ہے۔
’اس حوالے سے تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اگر ججز نے معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھایا اور وہ عدالتی افسران کی خدمات فراہم کرنے کو تیار ہوئے تو انتظامی افسران کی بجائے عدالتی افسران کا تقرر بھی کیا جا سکتا ہے۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’موجودہ حالات میں جس طرح انتظامی افسران ہمارے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جلسے جلوسوں سے بھی روکا جا رہا ہے۔ ان کی نگرانی میں شفاف الیکشن کیسے ممکن ہے؟
شعیب شاہین نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو غور کرنا چاہیے کہ ان کے حکم پر ڈی سی اسلام آباد کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا آپ نے انہیں ہی اسلام آباد کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر بنا دیا۔ اسی طرح تمام اضلاع میں ہماری مخالف جماعتوں کے حمایت یافتہ افسران تعینات ہیں انہیں ہی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’جو افسران ہمارے رہنماوں اور کارکنوں کی نظربندیوں کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔ ہمارے خلاف انتقامی کارروائیوں میں آلہ کار ہیں وہ ہمیں الیکشن جیتنے دیں گے؟‘
فافن کے عہدیدار چوہدری رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیا تھا کہ ’ہر بار الیکشن میں انتخابی عمل کی تکمیل ڈی آر اوز اور آر اوز کے ہی ذمہ ہوتی ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے 2013 میں عدالتی افسران کی خدمات حاصل کی تھیں۔
’پہلے بھی انتخابات میں انتظامی افسران کو ہی الیکشن پراسس کا حصہ بنایا گیا تھا۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق عملے نے صرف الیکشن کمیشن کی ہدایات اور قوائد و ضوابط پر ہی عمل کرنا ہوتا ہے اس لیے ان تعیناتیوں سے شفافیت پر زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔‘
چوہدری رشید کے بقول، ’ہر بار الیکشن میں انتخابی عملہ صرف اپنی ڈیوٹی کرتا ہے جو بھی انہیں کام سونپا جاتا ہے وہ اس کو پورا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ الیکشن پراسس میں سب کچھ ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق سب کے سامنے ہوتا ہے۔