پاکستان میں مقررہ تاریخ 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد سے متعلق تیاریوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز اور آر اوز کی ذمہ داری بیورو کریسی کے افسران کو سونپی ہے۔ یعنی ڈی آر اوز اضلاع کے ڈی سی جبکہ ان کے ماتحت افسران ریٹرننگ افسران کے فرائض انجام دیں گے۔
عدلیہ کے بجائے انتظامی افسران کو انتخابی عمل کی ذمہ داری دی جانے پر تحریک انصاف نے تحفظات کا اظہار کیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں گذشتہ ہفتے ہی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں الیکشن کمیشن کو انتظامی افسران کی تقرری روک کر ججز کی تعیناتی کا حکم دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کے بقول: ’الیکشن کمیشن کی جانب سے ججز کے بجائے انتظامی افسران کو ڈی آر اوز اور ریٹرننگ افسران مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس طرح شفاف انتخابات کے انعقاد پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ کیونکہ تمام انتظامی افسران کو سابق حکمران اتحاد (پی ڈی ایم حکومت) نے صوبائی حکومتوں کے ذریعے تعینات کرایا۔ وہ تحریک انصاف کے خلاف جانبدارانہ کارروائیوں میں پہلے ہی مصروف ہیں شفاف الیکشن کیسے کرائیں گے؟‘
اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ ’انتخابی عملے کو مکمل کرنے کے لیے افسران کی تقرری الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ وہ ریٹرننگ افسران انتظامی افسران کو بنائیں یا عدلیہ سے لیے جائیں، اس عمل کا انتخابات کی شفافیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن )کے مرکزی عہدیدار چوہدری رشید کے مطابق ’ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران ہوں یا دیگر انتخابی عملہ انہوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایات اور طے شدہ قوائد و ضوابط پر ہی عمل کرنا ہوتا ہے۔‘
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی سب سے پہلے کوشش ہوتی ہے کہ انتخابات کے لیے عدالتی افسران یعنی ججز کی خدمات حاصل کی جائیں۔
’اس بار بھی چیف الیکشن کمشنر نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو خطوط لکھے کہ الیکشن ڈیوٹی کے لیے ماتحت عدلیہ سے ججز فراہم کیے جائیں۔
’لیکن چیف جسٹسز نے کہا کہ عدالتوں پر پہلے ہی کیسوں کے التوا کا دباؤ ہے لہذا ججز انتخابی عمل میں فرائض انجام نہیں دے سکتے۔‘
کنور دلشاد کے بقول: ’اس جواب کے بعد الیکشن کمیشن نے صوبائی انتطامیہ سے ڈیوٹی کے لیے افسران کو مقرر کیا۔ لہذا ہر ضلع کا ڈی سی ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر جبکہ ان کے ماتحت افسران ریٹرنگ افسران ہوں گے۔ اسی طرح دیگر عملہ بھی مختلف محکموں کے ملازمین پر مشتمل ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انتظامی افسران کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے۔
’چیف الیکشن کمشنر پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ انتخابی شیڈول بھی 14 دسمبر تک جاری ہو جائے گا۔ کیونکہ شیڈول پولنگ سے 54 دن پہلے جاری کرنا آئینی ذمہ داری ہے۔
’اس حوالے سے تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اگر ججز نے معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھایا اور وہ عدالتی افسران کی خدمات فراہم کرنے کو تیار ہوئے تو انتظامی افسران کی بجائے عدالتی افسران کا تقرر بھی کیا جا سکتا ہے۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ حالات میں جس طرح انتظامی افسران ہمارے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جلسے جلوسوں سے بھی روکا جا رہا ہے۔ ان کی نگرانی میں شفاف الیکشن کیسے ممکن ہے؟
شعیب شاہین نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو غور کرنا چاہیے کہ ان کے حکم پر ڈی سی اسلام آباد کو عہدے سے نہیں ہٹایا گیا آپ نے انہیں ہی اسلام آباد کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر بنا دیا۔ اسی طرح تمام اضلاع میں ہماری مخالف جماعتوں کے حمایت یافتہ افسران تعینات ہیں انہیں ہی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’جو افسران ہمارے رہنماوں اور کارکنوں کی نظربندیوں کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔ ہمارے خلاف انتقامی کارروائیوں میں آلہ کار ہیں وہ ہمیں الیکشن جیتنے دیں گے؟‘
انتظامی افسران کی تعیناتی سے انتخابی عمل کی شفافیت متاثر ہو گی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فافن کے عہدیدار چوہدری رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیا کہ ’ہر بار الیکشن میں انتخابی عمل کی تکمیل ڈی آر اوز اور آر اوز کے ہی ذمہ ہوتی ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے 2013 میں عدالتی افسران کی خدمات حاصل کی تھیں۔
’لیکن 2018 کے انتخابات میں انتظامی افسران کو ہی الیکشن پراسس کا حصہ بنایا گیا تھا۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق عملے نے صرف الیکشن کمیشن کی ہدایات اور قوائد و ضوابط پر ہی عمل کرنا ہوتا ہے اس لیے ان تعیناتیوں سے شفافیت پر زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔‘
چوہدری رشید کے بقول، ’ہر بار الیکشن میں انتخابی عملہ صرف اپنی ڈیوٹی کرتا ہے جو بھی انہیں کام سونپا جاتا ہے وہ اس کو پورا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ الیکشن پراسس میں سب کچھ ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق سب کے سامنے ہوتا ہے۔
شعیب شاہین کے بقول، ’ای وی ایم کے تحت الیکشن کرانے سے گریز کے بعد اب انتظامی افسران کو تعینات کر کے تحریک اںصاف کی جیت روکنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
’ہم نے اورسیز پاکستانیوں کو ووت کا حق دلوانے کی کوشش کی وہ بھی روک دی گئی اب یہ طریقہ نکالا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو جیتنے سے روکا جائے۔‘