الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
گذشتہ ہفتے کو پاکستان تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات میں بیرسٹر گوہر علی خان بلامقابلہ پارٹی چیئرمین منتخب ہوئے تھے جس کے بعد اکبر ایس بابر نے اس انتخابی عمل پر اعتراض کرتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن میں چیلینج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جمعے کو الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تو اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے کہا ادارے نے ’پارٹی آئین کے تحت انتخابات کا حکم دیا تاہم نہ ووٹر لسٹ بنی اور نہ نامزدگی کا طریقہ کار واضح تھا۔ پارٹی آئین میں الیکشن پروگرام کا ذکر نہیں ہے۔‘
اس پر رکن الیکشن کمیشن نے کہا انہیں سمجھ نہیں آ رہی، وہ انہیں سمجھا دیں۔
جس پر اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ ’پارٹی کے الیکشن کمشنر نے ڈیٹا بیس اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ ہمیں پتہ نہیں کتنے لوگوں نے ووٹ دیے، اور نہ ہمارے پاس کوئی لسٹ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت اکبر ایس بابر رکن ہیں۔‘
وکیل نے مزید کہا کہ ’یہ انتخابات ہوئے ہی نہیں۔ جنہوں نے نوٹیفیکیشن جاری کیا انہیں معطل کیا جائے۔ ہم مرکزی دفتر گئے لیکن ہمیں کچھ نہیں دیا گیا، ہمیں کہا گیا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ہمیں نامزدگی فارم تک نہیں دیا گیا۔‘
درخواست گزار راجہ طاہر نواز عباسی کے وکیل نے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر موقف اختیار کیا کہ ’آئین کے مطابق ہر شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن پشاور میں نامعلوم جگہ پر الیکشن کے انعقاد کی بات کی گئی۔‘
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ’کچھ افراد جیل میں ہیں۔ انہیں کاغذات نامزدگی کا پتہ چلا اور انہوں نے کاغذات جمع کروائے۔ جیل میں موجود اور فرار افراد منتخب ہو رہے ہیں۔ پورا پراسس جعلی طریقے سے اختیار کیا گیا، اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔‘
اکبر ایس بابر نے کہا ’ماضی میں ہزاروں افراد نے نامزدگی فارمز جمع کروائے، الیکشن میں غلطیوں کی نشاندھی کی گئی۔ اس کے بعد لوگوں کو قصور وار ٹھہرا کر نکالا گیا، اور اس کے بعد کے انتخابات آپ کے سامنے ہیں۔‘
وکیل احمد حسن نے کہا کہ ’انتخابات میں حصہ لینے والے دفاتر گئے لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔‘
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے استفسار کیا کہ ’نامزدگی فارم حاصل کرنے کے لیے کیا کوشش کی گئی؟‘
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ’ہم مرکزی دفتر گئے جس کے ویڈیو ثبوت بھی جمع کیے گئے ہیں۔ ہم نے تحریری شکایت نہیں کی لیکن خود وہاں گئے۔‘
بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر نے ویڈیو ثبوت دکھانے کا کہا۔
پی ٹی آئی دفتر میں کیا ہوا؟
ویڈیو دکھائے جانے کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے جگہ سے متعلق استفسار کیا، جس پر انہیں بتایا گیا کہ ’یہ سیکٹر جی ایٹ میں واقع پی ٹی آئی کا مرکزی دفتر ہے۔‘
ویڈیو میں اکبر ایس بابر پی ٹی آئی دفتر میں مکالمہ کرتے نظر آئے کہ انہیں ’انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔ آپ ہمیں کاغذات نامزدگی فارم دے دیں۔ جیت یا ہار ایک الگ بات ہے۔ ہمیں ووٹر لسٹ اور طریقہ کار سے متعلق فارمز دیں، ہم انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔‘
پی ٹی آئی دفتر کے انچارج نے کہا کہ ’دفتر خالی پڑا ہے، یہاں پر کوئی فارمز نہیں ہیں۔‘
اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے کہا کہ ’اگر الیکشن کمیشن ویڈیو فارنزک کروانا چاہتی ہے تو کرسکتی ہے۔‘
انہوں نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق انتخابات نہیں کروائے۔ جن افراد نے انٹرا پارٹی انتخابات کی ذمہ داری دوبارہ نہیں نبھائی، انہیں اختیار ٹھیک نہیں تھا۔ دوبارہ انتخابات کا حکم دیا جائے جس میں سب کو موقع ملے اور الیکشن کمیشن اس انتخاب کی مانیٹرنگ کروائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رکن الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ’آئین کے مطابق انتخابات کا بار بار حکم نہیں دیا جا سکتا، دوبارہ الیکشن کی بات بھول جائیں۔‘
اس دوران درخواست گزار نورین فاروق خان بھی الیکشن کمیشن میں پیش ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ سال 1999 سے پی ٹی آئی سے منسلک ہیں اور وومن ونگ کی عہدیدار بھی رہی ہیں۔ انہیں پارٹی الیکشن میں موقع نہیں دیا گیا۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف اکبر ایس بابر سمیت 11 افراد کی جانب سے درخواستیں جمع کروائی گئی تھیں۔
الیکشن کمیشن میں چیلنج کرتے ہوئے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا کوئی شیڈول یا ووٹر فہرستیں نہیں آئیں اور مرکزی سیکرٹریٹ میں کوئی سرگرمی بھی نہیں ہوئی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات قانون اور پارٹی آئین کے مطابق نہیں کروائے گئے لہذا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے۔