الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات پر ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹس پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
وکیل علی ظفر نے منگل کو کیس کی سماعت کے آغاز میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن سے گذشتہ روز ایک کیس میں ان کی بحث مکمل ہونے کے بعد 40 نئے سوالات آ گئے، ادارے سے اس وقت کہا تھا کہ کوئی کمی ہے تو ابھی بتا دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں اس سے حیران اور مایوس ہوا، الیکشن کمیشن کا مخالف نہیں۔ اداروں کی عزت ہونی چاہیے۔‘
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے جواب میں کہا کہ ’ان سے چار سوالات کے جوابات مانگے گئے اور کمیشن نے جوابات ملنے کے بعد ہی انہیں سننے کا فیصلہ مناسب سمجھا، چاہتے ہیں کہ جلدی کیس نمٹے۔‘
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن قوانین کے مطابق فارم 65 پر پارٹی سربراہ دستخط کرتا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے مسلم لیگ ن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی سربراہ شہباز شریف نے فارم 65 پر خود دستخط کیے جبکہ ’ہمیں کہا گیا کہ پارٹی سربراہ دستخط نہ کرے ان کا مجاز شخص سائن کرے، یہ امتیاز کیوں؟ یہ ایسی چیز نہیں جس کی بنیاد پر الیکشن منسوخ کر دیں یا نشان روک دیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی ظفر نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی wide publicity نہ کرنے پر اعتراض اٹھایا گیا۔ ادارے کے کس قانون میں لکھا ہے کہ اس کی تشہیر کرنی ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے اس موقع پر کہا کہ ’مسلم لیگ ن نے صرف مرکزی الیکشن کروائے صوبائی الیکشن نہیں۔‘
جس پر ممبر الیکشن کمیشن نے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے ن لیگ کے انتخابات کو چیلنج کیا؟ علی ظفر نے کہا کہ یہ نوٹس الیکشن کمیشن نے لیا ہے، کیا باقی جماعتوں کا بھی لیا گیا؟ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کئی جماعتوں کو نوٹس گیا ہے۔
’سوال کیا گیا کہ بلامقابلہ الیکشن کا پہلے سے معلوم تھا، یہ سوال تو کوئی مخالف پوچھ سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں۔ کوئی چیز پہلے سے پلینڈ نہیں تھی، الزام نہ لگائیں۔‘
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔