پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان اور مشہور کرکٹر عبدالقادر آج انتقال کر گئے۔ ذرائع کے مطابق عبدالقادر کو دل کا دورہ پڑنے پر اسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی تاہم وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔
عبدالقادر نے دسمبر 1977ء میں انگلینڈ کے خلاف لاہور میں ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا اور 67 میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ٹیسٹ کیریئر کے دوران انہوں نے 32 اعشاریہ 80 کی اوسط سے مجموعی طور پر 236 وکٹیں حاصل کیں۔
کسی بھی ٹیسٹ کی ایک اننگز میں اُن کی بہترین بولنگ 56 رنز کے عوض 9 وکٹیں تھی جبکہ 101 رنز دے کر 13 وکٹیں کسی بھی ٹیسٹ میچ میں اُن کی سب سے اچھی پرفارمنس تھی۔
عبدالقادر نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گلی محلوں میں گزاری زندگی کے دوران غربت کو بہت قریب سے دیکھا۔ ایک انٹرویو میں بتایا کہ زمانے کی سفارشوں کے چکر میں کئی عبدالقادر میری ہی طرح ہوں گے جو سامنے نہیں آ سکے، مجھ پر مالک کا خاص کرم رہا جو قومی ٹیم تک لے آیا۔
کرکٹ کی دنیا میں آنے کا واقعہ انہوں نے یوں سنایا کہ بچپن میں گولیاں کھیلتے کھیلتے ایک لڑکا انہیں کرکٹ میچ پر لے گیا۔ وجہ یہ تھی کہ اگر میچ میں لڑائی ہو تو عبدالقادر ٹیم کا ساتھ دیں۔ وہ محلے داری اور دوستی کی وجہ سے اس کے ساتھ چلے گئے حالانکہ اس وقت انہیں کرکٹ نہیں آتی تھی۔ اس واقعے نے انہیں مستقبل کا عظیم کرکٹر بنا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالقادر کی گگلی دنیا بھر میں مشہور ہوئی۔ وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔
جس ٹیم میں عمران خان اور میانداد جیسے کھلاڑی تھے وہاں اپنی پرفارمنس کی وجہ سے عبدالقادر نے جگہ بنائی۔ وہ پی سی بی میں چیف سلیکٹر بھی رہے۔ ان کے چنے ہوئے کئی کھلاڑی آج بھی قومی ٹیم میں موجود ہیں۔
حالیہ دنوں میں عبدالقادر پی سی بی پر اپنی سخت تنقید کے حوالے سے کئی بار سرخیوں کی زینت بنے۔
دو ستمبر کو انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے ارشد چوہدری سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’گلی محلوں سے کھیل کر سٹار بننے والے باصلاحیت کھلاڑیوں کو نظر اندازکر کے کرکٹ کے معیار کو بہتر بنانا ناممکن ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری کے بعد ایک ملاقات میں جب وزیر اعظم نے سینیئر کھلاڑیوں کی موجودگی میں کہا کہ وہ ڈیپارٹمینٹل کرکٹ ٹیمیں ختم کرنا چاہتے ہیں تو سب خاموش رہے لیکن میں نے کہا کہ یہ غریب اور چھوٹےعلاقوں کے کھلاڑیوں سے زیادتی ہو گی اور سلیکشن پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے لہٰذا آپ ایسا نہ کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ان کا مشورہ نہیں مانا اور چیئرمین پی سی بی اور دیگرعہدے داروں کے مشورے پر ڈومیسٹک سٹرکچر تبدیل کردیا جس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔
ان کا خیال تھا کہ ’کھیلوں کی بنیاد پر ڈپارٹمنٹس میں نوکریاں نہ ملنے پر کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔‘
انہوں نے دوران انٹرویو سوال بھی اٹھایا کہ ’بورڈ حکام مصباح الحق کو ہیڈ کوچ جبکہ وقار یونس کوبولنگ کوچ بنانا چاہتے ہیں، وہ تو پہلے بھی ٹیم کے ساتھ موجود رہے اب نیا کیا کریں گے؟‘