ایران کے صدر روحانی نے اپنے سابقہ بیان پر عمل کرتے ہوئے ایران میں افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافے کی غرض سے سینٹری فیوجز پر کام کرنے کی رفتار کو کئی گنا تیز کر دیا ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق حکومت نے 2015 میں طے پائے جانے والے تاریخی جوہری معاہدے سے ایک قدم مزید پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے افزودہ یورینیم کے ذخائر بڑھانے کے لیے سینٹری فیوجز کی تیاری کا عمل تیز کر دیا ہے۔
تاہم ایرانی ایٹمی توانائی کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو ملکی جوہری تنصیبات تک رسائی دینے کے ارادے پر قائم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ انتظامیہ کے اس معاہدے سے نکلنے کے بعد تین یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گذشتہ برس مئی میں صدر ٹرمپ کی جانب سے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے امریکہ کو باہر نکالنے اور ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بعد تہران اور واشنگٹن کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے اور دونوں ممالک حالیہ مہینوں کے دوران کئی مواقع پر جنگ کے قریب تر پہنچ گئے تھے۔
امریکہ ایران کشیدگی میں اضافہ کب ہوا؟
اس کشیدگی میں اچانک اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب رواں سال جون میں ایران نے آبنائے ہرمز کے قریب امریکی ڈرون مار گرایا تھا جس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے ایران پر جوابی حملے کا حکم دے دیا تھا جسے آخری لمحوں میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔
ہفتے کو ایران کی ایٹمی ایجنسی کا کہنا تھا کہ اس نے جوہری معاہدے سے پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے IR-4 20 اور IR-6 20 سینٹری فیوجز کو متحرک کر دیا ہے۔
ایجنسی کے ترجمان بہروز کمالوندی نے کہا: ’جوہری تحقیق اور پیش رفت کے پیش نظر سینٹری فیوج مشینز سے یورینیم کے (افزودہ) ذخائر میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔‘
اس ساری پیش قدمی کے نتیجے میں تاحال یہ امر واضح ہے کہ ایران 2015 میں طے پانے والے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے بہت حد تک الگ ہو جائے گا۔
ایٹمی معاہدہ کیا تھا؟
جے سی پی او اے (JCPOA) نامی یہ ایٹمی معاہدہ ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین سمیت جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ کیا تھا۔ ٹرمپ دور حکومت میں اس معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد یہ معاہدہ خطرے سے دوچار ہے۔
جے سی پی او اے معاہدے کے تحت ایرانی ایٹمی پروگرام محدود کردیا گیا تھا اور اس کے بدلے میں اسے مغربی ممالک کے ساتھ معمول کے تجارتی تعلقات کی اجازت دی گئی تھی۔ امریکہ نے اس ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی اور گذشتہ برس اعلان کیا کہ ایٹمی پروگرام کے معاملے میں ایران کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے بین الاقوامی تجارت اور سرمائے پر اپنے غلبے کو استعمال کیا جس کے تحت امریکہ کسی بھی ایسے ملک کا بائیکاٹ کر سکتا ہے جو ایران سے تیل خریدے گا۔
معاہدے سے پیچھے ہٹتا ایران:
گذشتہ ہفتے ایرانی صدر اپنے ایک بیان میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’ادارہ برائے ایٹمی توانائی ایران میں تحقیقی شعبے کی جملہ ضروریات پورا کرنے کے لیے فوری طور پر کام شروع کر رہا ہے۔ نیز سابقہ ایٹمی معاہدے کے تحت جو بھی طے پایا تھا اسے ایک طرف رکھ دیا جائے گا۔ ہم سینٹری فیوجزکے شعبے میں تحقیق اورانہیں بالکل تیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان میں تمام اقسام کی جدید سینٹری فیوجز شامل ہیں۔‘ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ مسلسل تیسرا موقع ہے کہ ایران نے نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے اپنے اوپر عائد پابندیوں سے پہلوتہی کی ہے۔
عالمی رد عمل:
جمعرات کو ایران کے پرانے مخالف اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ برطانوی حکام سے ملاقاتوں کے لیے ایران پر دباؤ بڑھائیں۔
ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے برائن ہک نے وزارت خارجہ میں بریفنگ کے دوران رپورٹروں کو بتایا کہ ایران پر ایسی مزید پابندیاں لگائی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رکھیں گے۔‘
برائن ہک اس قبل بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی 40 سالہ تاریخ میں ایسے معاملات کو چوہے بلی جیسے سفارتی کھیل سے تشبیہہ دے چکے ہیں۔